خبرنامہ پاکستان

مولانا فضل الرحمن نے مغرب اور یورپ کے ساتھ دوستانہ تعلقات کیلئے 5نکاتی ایجنڈے کا اعلان کردیا

اسلام آباد (ملت آن لائن + آئی این پی) جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے مغرب اور یورپ کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے لئے 5نکاتی ایجنڈے کا اعلان کردیا‘ مشترکہ معاشی خوشحالی‘ پسماندہ طبقوں کی محرومیوں کے خاتمے ‘ امن سب کے لئے ‘ بنیادی انسانی حقوق اور ہر ایک کی شہری آزادی کے تحفظ کا عہد کرنا ہوگا‘ہم باہمی تعلقات کو فروغ دے سکتے ہیں‘ پاکستان میں ہمیں حکومت ملی تو مستقبل میں آپ کو کرپشن نظر آئے گی اور نہ کوئی کرپشن کرپشن کا نعرہ لگے گا ‘ ہمارے پاس وسائل ہیں ٹیکنالوجی نہیں ہے مغرب ٹیکنالوجی دے اور باہمی طور پر ان سے فائدہ اٹھائے‘ یک طرفہ طور پر پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے وسائل پر قبضے کی سوچ کو ترک کیا جائے‘ یقیناً جنگ کی بنیاد پر مسائل کے حل اور طاقت کے استعمال کی سوچ سے یقیناً بہت کچھ سیکھا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو اسلام آباد میں یورپی ممالک کے سفیروں کو جمعیت علماء اسلام (ف) کی صد سالہ خدمات پر بریفنگ دیتے ہوئے کیا اور یورپی یونین سمیت دیگر ممالک کے سفیروں کو 7,8,9اپریل کو صد سالہ تقریبات میں شرکت کی دعوت دی۔ تقریب میں ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے بھی مہمانوں کا خیر مقدم کیا ۔ بریفنگ دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم عدم تشدد پر مبنی جدوجہد اور اسی طرز سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ آئینی و سیاسی جدوجہد کے ذریعے مسائل کے حل کے لئے کوشاں ہیں۔ دین اسلام کی تعلیمات انسانیت کی فلاح و بہبود ہے اس کے لئے کسی خاص قومیت کسی خاص علاقے نہیں بلکہ پوری انسانیت کی بھلائی مدنظر ہے۔ اسلام کے پیغام کو فرقہ واریت تعصب اور نفرت کی بنیاد پر نہ لیا جائے۔ اس کی بنیاد وسیع اور عالمگیر تصور ہے۔ اسلام تمام انسانوں کی خدمت اور باہمی تعاون کی بات کرتا ہے۔ ایک دوسرے کی صلاحیتوں اور ٹیکنالوجی سے شراکت داری کی بنیاد پر فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ہم دنیا کے ساتھ بہترین تعلقات چاہتے ہیں ہر ایک کی آزادی اور خودمختاری کا خیال رکھا جائے۔ دولت‘ ٹیکنالوجی اور وسائل سے سب کے مفادات وابستہ ہیں۔ محنت‘ اقتصادی ترقی‘ تجارتی تعلقات انسانیت کو بہت کچھ مہیا کرسکتے ہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ یک طرفہ طور پر پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے وسائل پر قبضے کی کوشش نہ کی جائے اور ہمیشہ سے ہمارا اختلاف رائے بھی یہی رہا ہے کہ پسماندہ ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کی بجائے صلاحیتوں کی بنیاد پر اس سے فائدہ اٹھایا جائے ہمارے پاس وسائل ہیں مگر ٹیکنالوجی نہیں ہے مغرب کے پاس ٹیکنالوجی ہے وہ یہ ٹیکنالوجی ہمیں مہیا کرے اور باہمی طور پر ان وسائل سے فائدہ اٹھایا جائے اس کے لئے ٹیکنالوجی کا تبادلہ ضروری ہے۔ ہم یک طرفہ قبضے کرنیکے نظریے کے خلاف ہیں ہم تعاون چاہتے ہیں استحصال نہیں۔ مغرب نے بھی جنگ کی بنیاد پر مسائل کے حل اور طاقت کے استعمال کی سوچ سے یقیناً بہت کچھ سیکھا ہوگا یہی وجہ ہے کہ باہمی تعلقات کے فروغ کے لئے مالیاتی ادارے قائم کئے گئے‘ دفاعی معاملات اور سیاسی میدان میں رابطوں اور تعلقات کے لئے نئی کوششیں کی گئیں اس کے لئے ضروری ہے کہ خودمختاری کو نہ صرف تسلیم کیا جائے بلکہ ہر ایک کی آزادی کے بنیادی اصول کا احترام کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اور جنیوا میں شہری آزادیوں اور انسانی حقوق بعد میں متعارف کرائے جبکہ برصغیر پاک و ہند میں یہ منشور 1919میں یہاں کے مذہبی اکابرین متعارف کراچکے تھے۔ اسی دور میں کہہ دیا تھا کہ جنگ کے ذریعے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ سیاسی اور پرامن جدوجہد کے ذریعے مقاصد کا حصول ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی ہر انسان کا پہلا بنیادی حق ہے انسانی حقوق کا تحفظ پوری انسانیت کے لئے ہونا چاہئے۔ اور اسی سوچ کے ذریعے امن کے قیام کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشی خوشحالی پسماندہ طبقوں کی محرومیوں کے خاتمے ‘ امن سب کے لئے ‘ بنیادی انسانی حقوق اور ہر ایک کی شہری آزادی کا تحفظ وہ پانچ نکاتی ایجنڈا ہے جس پر ہم باہمی تعلقات کو فروغ دے سکتے ہیں۔ یقیناً مغربی دنیا نے بھی سبق سیکھا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم وسیع النظر ہیں خواتین کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں سب سے زیادہ اقلیتوں کی نمائندگی ہماری جماعت میں ہے۔ مغرب کو بھی پالیسیوں میں تبدیلی لانا ہوگی اور اس بات کی ضمانت دی جائے کہ ہر ایک کی آزادی کے یقینی حق کو تسلیم کیا جائے گا اسی طرح انسانیت محفوظ ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کو پاکستان کے دینی طبقات کی سوچ کو سمجھنے کی ضرورت ہے بدقسمتی سے آج تک مذہب کے ساتھ تنگ نظری‘ تشدد ‘ دہشت گردی‘ شدت پسندی کو وابستہ کیا گیا اور اسی تصور کے ساتھ مذہب کو دیکھا گیا ہم نے ہمیشہ اس کی وضاحت کی اور اس محدود تصور کی نفی کی اور اس کے لئے ہمیں تیز و تند ہواؤں کا سامنا کرنا پڑا‘ بندوقوں‘ فرقہ واریت کے چیلنجز سے عہدہ برآ ہوئے اور محفوظ حالت میں ان تیز و تند ہواؤں سے باہر نکلے۔ خود مجھ پر حملے ہوئے ہمارے معتبر پارلیمنٹرین کو شہید کیا گیا ہمارے سینئر ساتھیوں کو تشدد کے ذریعے شہید کیا گیا اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہم تشدد‘ انتہا پسندی کے محدود تصور کو اسلامی تعلیمات تسلیم کرتے ہیں نہ کبھی ایسا کیا ہے۔ ہم ہی نہیں بلکہ پاکستان کی تمام دینی جماعتیں اور تمام مسالک کے مدارس پاکستان میں آئین‘ قانون کے ساتھ ہیں۔ سیاسی نظام کے ساتھ کھڑے ہیں اس سے وابستہ ہیں اسمبلیوں کے اراکین منتخب ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو ایک دو لوگ قانون کی نفی‘ انتہا پسندی اور اسلحہ کے زور پر اپنے خیالات کو مسلط کرنے کی سوچ رکھتے ہیں اس کا خوبپراپیگنڈہ کیا جاتا ہے جبکہ ہم اس محدود تصور کو مذہب کی تشریح تسلیم نہیں کرتے اور جو 98 اور 99فیصد اپنے مثبت رویوں کے ساتھ اسلام کے وسیع پیغام کو اجاگر کرتے ہوئے مذہب کی تشریح کرتے ہیں تاثر یہی ہے کہ ان پر توجہ نہیں دی جاتی بلکہ ہمیشہ انہیں دیوار سے لگانے اور دفاعی پوزیشن میں رکھنے کے لئے ہر سیاسی حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ زمینی حقائق تو یہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم پاکستان کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت ہیں ہر اسمبلی میں ہماری نمائندگی ہے ہر طبقے اورہر مسلک نے ہم پر اعتماد کیا ہے اور ہمارے پاس وسیع عوامی اعتماد موجود ہے۔ کوئی نہ کوئی تو وجہ ہوگی کہ ہمیں یہ وسیع عوامی اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ ہم نے ہمیشہ پاکستان میں رہنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کے حقوق کی بات کی ہے۔ مسیحی برادری‘ ہندو‘ سکھ ہماری جماعت کا حصہ ہیں بلکہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے کئی پارلیمنٹرینز ہمارے سابقہ وفاقی و صوبائی وزراء رہے۔ بشپ آف پاکستان جے یو آئی (ف) میں شامل ہوچکے ہیں اور حال ہی میں دیگر مذاہب کے تمام رہنماؤں نے مجھ سے ملاقات کرکے ہماری جماعت میں شرکت کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا منشور تمام کے حقوق کا محافظ ہے ہم تمام اقوام کے ساتھ مل کر رہنا چاہتے ہیں اقلیتوں کی جان‘ مال ‘ عزت و آبرو کا تحفظ چاہتے ہیں بلکہ اس کے لئے ہم نے عملی اقدامات بھی کئے جب ہم صوبائی حکومتوں میں رہے۔ ہم ایک قوم کے تصور کے ساتھ پاکستان کی ترقی و خوشحالی چاہتے ہیں۔ مذہبی جماعتوں سے رابطوں کی خواہش کے اظہار کے جواب میں مولانا فضل الرحمن نے واضح کیا کہ پاکستان میں انتخابات آئینی تقاضا ہے۔ ماضی کی طرح پھر پاکستان میں انتخابات کا مرحلہ عبور کریں گے۔ ہمارا اپنا مذہبی تشخص ہے اور اس طبقہ میں ہمیں نمائندہ حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہمیشہ مختلف طبقوں پر اعتماد کا اظہار ہوتا رہا ہے ہم بھی پرامن سیاسی آئینی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اگرچہ محدود طور پر ہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں رہے ہیں مگر آج میں نے امن اور اعتدال کا جو تصور پیش کیا ہے ہم تو شروع دن سے اس کے لئے عملی جدوجہد کررہے ہیں۔ نظریاتی بنیاد پر بین الاقوامی تعلقات میں توازن اور بہتری چاہتے ہیں۔ ہم اپنے ساتھ عالمی مفادات کو وابستہ نہ کرسکے اور ہمیشہ میں نے یہ بات کی کہ پاکستان شاید دوسروں کے فائدے کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے جبکہ کامیاب خارجہ پالیسی کا محور اور مرکز ملکی مفادات ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے اچھا موقع ہے ہم یورپ اور مغرب کے ساتھ بھی اسی قسم کے منافع بخش اور اقتصادی تعلقات کی خواہش رکھتے ہیں دوستانہ تعلقات کی بنیاد پر مغرب کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں اور دنیا کو اعتماد دلانا چاہتے ہیں کہ ہم دوستی اور پرامن تعلقات‘ اقتصادی ترقی‘ انسانی حقوق‘ آزادی ‘ اختیار اعلیٰ و اقتدار اعلیٰ کے حوالے سے سب کا احترام کرتے ہیں پاکستان میں اب ہمارے حوالے سے بھی تجربہ ہونا چاہئے اور میں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اگر پاکستان میں ہمیں حکومت ملی تو مستقبل میں آپ کو کرپشن نظر آئے گی اور نہ کوئی کرپشن کرپشن کا نعرہ لگے گا ہمارا ماضی بھی بے داغ ہے ‘ حال بھی اور ہم انسانیت کے مستقبل کو روشن دیکھنا چاہتے ہیں۔ (ن غ/ ا ع)