خبرنامہ پاکستان

نااہلی مدت کیس:سابق وزیراعظم کے بیانات سب کے سامنے ہیں:سپریم کورٹ

نااہلی مدت کیس

نااہلی مدت کیس:سابق وزیراعظم کے بیانات سب کے سامنے ہیں:سپریم کورٹ

اسلام آباد: (ملت آن لائن) سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ 28 جولائی کے بعد سے وزیراعظم کے بیانات سب کے سامنے ہیں، نئے قانون کے تحت سزا یافتہ شخص بھی پارٹی سربراہ بن سکتا ہے، صرف نواز شریف کی حد تک نہیں عمومی طور پر قانون کودیکھ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کر رہا ہے۔ جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کے وکیل شیخ احسن الدین نے اپنے دلائل میں کہا کہ نا اہلی کے ساتھ نواز شریف پارٹی عہدے سے فارغ ہوگئے تھے، صرف نواز شریف کو پارٹی صدر بنانے کے لیے قانون بنایا گیا، آئین کے تحت نااہل شخص کو معمولی قانون سازی سے بحال نہیں کیا جاسکتا، موجودہ وزیراعظم حواس باختہ ہوچکے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 28 جولائی کے بعد سے وزیراعظم کے بیانات سب کے سامنے ہیں، نئے قانون کے تحت سزا یافتہ شخص بھی پارٹی سربراہ بن سکتا ہے، صرف نواز شریف کی حد تک نہیں عمومی طور پر قانون کو دیکھ رہے ہیں۔
وکیل ذوالفقار بھٹہ نے کہا کہ فروغ نسیم اور لطیف کھوسہ کے دلائل اپناتا ہوں، نا اہل شخص کسی بھی طرح عوام کی نمائندگی نہیں کر سکتا، درخواست گزار ذولفقار بھٹہ کے دلائل مکمل ہوئے تو جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عدالت کے فیصلے کو قانون سازی کے ذریعے براہ راست تو غیر موثر کیا جاسکتا ہے، بالواسطہ نہیں، نا اہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کے قانون سے نہ صرف سپریم کورٹ کا فیصلہ بلکہ آئین کی شق بھی غیر موثر ہو گئی ہے۔ وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ یہ مقدمہ قانون اور ایک شخص کی حکمرانی کے درمیان ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کابنیادی فیچر جمہوریت ہے، یہ بتائیں آرٹیکل کونسے قانون سے متصادم ہے، یہ بتائیں اس قانون سے آئین کو کون کا کونسا آرٹیکل متاثر ہوتا ہے۔ وکیل درخواست گزار ودود قریشی طارق اسد نے کہا کہ اس مقدمہ کے سیاسی پہلو بھی ہیں، درخواست گزار ودود قریشی کے وکیل طارق اسد نے کہا کہ قانون آرٹیکل 62 اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، آرٹیکل 62 صرف صادق اور امین کے حوالے سے نہیں ہے، آرٹیکل 62 میں درج خصوصیات صرف انبیاء کرام کی ہو سکتی ہیں، کسی شخص کا ان خصوصیات پر پورا اترنا ممکن نہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نشاندہی کریں، سیکشن 203 آئین سے منافی کس طرح سے ہے۔ طارق اسد نے کہا کہ قانون میں اسلام کے حوالے سے بات جان بوجھ کر شامل کر دی گئی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے اسلامی شقیں بحال کر دی گئیں ہیں، طارق اسد نے کہا کہ سب سے اہم بات ختم نبوت والی تھی اس پر کسی نے ابتدا میں توجہ نہیں دی، ختم نبوت کی شقیں ختم کرنے والوں کی نشاندہی ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ختم نبوت سے کسی کو انکار نہیں، طارق اسد نے کہا کہ ختم نبوت والوں کو کیوں ایسے چھوڑ دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون بننے کے بعد ذمہ داری پارلیمنٹ کی ہوتی یے، قانون بننے کے بعد مسودہ تیار کرنے والے ڈرافٹ کا کردار ختم ہو جاتا ہے۔