خبرنامہ پاکستان

نقیب اللہ قتل، سراج الحق کا کراچی میں جرگے کا اعلان

عدلیہ عدل و انصاف

نقیب اللہ قتل، سراج الحق کا کراچی میں جرگے کا اعلان

کراچی:(ملت آن لائن) جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے نقیب اللہ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اہل خانہ انصاف سے مطمئن نہ ہوئے تو 31 جنوری کو شہر قائد میں جرگہ منعقد کیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نقیب اللہ کے اہل خانہ سے تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، سراج الحق کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس سے مطالبہ ہے نوجوان کے بہیمانہ قتل پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دیں کیونکہ نقیب کی طرح کئی بے گناہ نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں ہلاک کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا نہیں ہوگا کہ اپنے ہی شہریوں کو جعلی مقابلوں مین بے دردی سے قتل کیا جائے، بے گناہوں اور مزدوروں کا قتل کون سا انصاف ہے؟، اگر نقیب اللہ مجرم تھا تو اُسے عدالتوں میں پیش کیا جاتا۔ جماعت اسلامی کے امیر نے سابق صدر آصف علی زرداری اور سندھ حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ تو جمہوریت کے چیمپئن اور لوگوں کے حقوق کی آواز بلند کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر 10 روز میں ایسی کارروائی کر دکھائیں جس سے متاثرہ خاندان کو انصاف ہوتا نظر آئے‘۔
نقیب اللہ کی ہلاکت، ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو عہدےسےفارغ کردیاگیا
سراج الحق کا مزید کہنا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نوجوان کی ہلاکت پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دیں تاکہ منصفانہ تحقیقات ہوسکیں، اگر اہل خانہ کو انصاف نہ ملا تو 10 روز بعد یعنی 31 جنوری کو گرینڈ جرگہ ہوگا۔
نقیب اللہ کی ہلاکت، پشاور میں قبائلی عمائدین کا جرگہ
دوسری جانب پشاور کے علاقے باغ ناران میں فاٹا کے مختلف قبائلی عمائدین کا جرگہ منعقد ہوا جس میں نقیب اللہ محسوس کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔ جرگہ عمائدین نے مطالبہ کیا کہ ’نقیب اللہ کے واقعے کی تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے اور حکومت متاثرہ خاندان کی مالی معاونت کا بھی اعلان کرے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں قبائیلیوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
نوجوان کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کا پس منظر
واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں خطرناک ملزمان کی گرفتاری کے لیے شاہ لطیف ٹاؤن میں چھاپے کے لیے جانے والی پولیس پارٹی پر دہشت گردوں نے فائرنگ کردی تھی جس پر پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔
چیف جسٹس کا نقیب اللہ محسود کے قتل کا ازخود نوٹس
یاد رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے نقیب اللہ کی ہلاکت کا ازخود نوٹس لیا تھا اور آئی جی سندھ سے سات روز میں واقعے کی رپورٹ طلب کرلی تھی۔ نقیب اللہ کے حوالے سے ایس ایس پی ملیر راؤ انور نے دعویٰ کیا تھا کہ دہشت گردی کی درجنوں وارداتوں میں ملوث نقیب اللہ کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تھا اور کراچی میں نیٹ ورک چلا رہا تھا جبکہ 2004 سے 2009 تک بیت اللہ محسود کا گن مین رہا جبکہ دہشتگری کی کئی واردتوں سمیت ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل توڑنےمیں بھی ملوث تھا۔ نوجوان کی مبینہ ہلاکت کو سوشل میڈیا پر شور اٹھا اور مظاہرے شرو ہوئے تھے بلاول بھٹو نے وزیرداخلہ سندھ کو واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا جس کے بعد ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں تفتیشی ٹیم نے ایس ایس پی ملیر سے انکوائری کی۔ نقیب اللہ کراچی میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا نیٹ ورک چلا رہاتھا ، راؤ انوار کا دعویتفتیشی ٹیم نے جائے وقوعہ کا معائنہ کیا اور سینٹرل جیل میں قید تحریک طالبان کے دہشت گردوں سے نقیب اللہ کے بارے میں پوچھ گچھ کی، اس دوران یہ بات سامنے آئی کہ یہ وہ شخص نہیں جو طالبان کا کمانڈر تھا بلکہ یہ اُس کا ہم نام بے گناہ نوجوان تھا۔ اعلیٰ سطح پر بنائی جانے والی تفتیشی ٹیم نے راؤ انوار کو عہدے سے برطرف کرنے اور نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کی سفارش کی جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے انہیں گزشتہ روز عہدے سے برطرف کردیا گیا۔