خبرنامہ پاکستان

نقیب اللہ قتل کیس: چیف جسٹس نے نجی جہازوں کی تفصیلات مانگ لیں

نقیب اللہ قتل کیس

نقیب اللہ قتل کیس: چیف جسٹس نے نجی جہازوں کی تفصیلات مانگ لیں

اسلام آباد:(ملت آن لائن) سپریم کورٹ میں 13 جنوری کو کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے نقیب اللہ محسود کے قتل کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سول ایوی ایشن کے نمائندے سے پاکستان کے نجی جہازوں سے متعلق تفصیلات مانگ لیں۔ جس پر نمائندہ سول ایوی ایشن نے جواب دیا کہ 4 پرائیویٹ آپریٹرز نے بیان حلفی دیا ہے کہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار ان کے ذریعے نہیں گئے۔ واضح رہے کہ نقیب اللہ کو مقابلے میں مارنے والے سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار بدستور مفرور ہیں، عدالت عظمیٰ نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کو راؤ انوار کو 3 دن میں گرفتار کرنے کی مہلت دی تھی جو منگل (30 جنوری) کو ختم ہو چکی ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ نقیب قتل کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ آج سماعت کے دوران آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اور سول ایوی ایشن کا نمائندہ سپریم کورٹ میں پیش ہوا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پاکستان سے جو پرائیویٹ جہاز استعمال ہوئے ان کا ریکارڈ دیں۔ نمائندہ سول ایوی ایشن نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ‘4 آپریٹرز ہیں، جنہوں نے اُس وقت ایئرپورٹ سےآپریٹ کیا اور چاروں آپریٹرز نے بیان حلفی دیا ہے کہ راؤ انوار ان کے ذریعے نہیں گئے’۔
نقیب اللہ کا ماورائے عدالت قتل اور تحقیقات
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ 13 جنوری کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلے کے دوران 4 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا، جن میں 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ محسود بھی شامل تھا۔ بعدازاں نقیب اللہ محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔ بعدازاں آئی جی سندھ کی جانب سے تشکیل دی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کی، جس کے باعث انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لیا۔ گذشتہ ماہ 27 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے پولیس کو راؤ انوار کو گرفتار کرنے کے لیے 72 گھنٹوں کی مہلت دی تھی۔ جس کے بعد انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اللہ ڈنو خواجہ نے راؤ انوار کا سراغ لگانے کے لیے حساس اداروں سے بھی مدد مانگ لی اور ان کی تلاش میں چھاپے بھی مارے گئے لیکن تاحال راؤ انوار کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔