خبرنامہ پاکستان

نقیب قتل کیس: راؤ انوار کو انسداد دہشتگردی عدالت پہنچا دیا گیا

نقیب قتل کیس

نقیب قتل کیس: راؤ انوار کو انسداد دہشتگردی عدالت پہنچا دیا گیا

کراچی:(ملت آن لائن) نقیب اللہ قتل کیس میں گرفتار سابق سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس اسی پی) راؤ انوار کو کلفٹن میں انسداد دہشت گردی کی عدالت پہنچا دیا گیا۔ راؤ انوار کو بکتر بند گاڑی میں انتہائی سخت سیکیورٹی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت لایا گیا۔ معطل ایس ایس پی راؤ انوار کل اچانک سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے جہاں انہیں عدالتی حکم پر گرفتا کیا گیا جس کے بعد کراچی منتقل کردیا گیا۔
نقیب قتل کیس: معطل ایس ایس پی راؤ انوار کو کراچی پہنچا دیا گیا
ایس پی انویسٹی گیشن عابد قائم خانی راؤ انوار کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے سخت سیکیورٹی میں ملیر کینٹ سے روانہ ہوئے۔ راؤ انوار کو لانے والے کانوائے میں پولیس کی 10 سے 12 موبائلیں، 2 بکتر بند گاڑیاں اور موٹرسائیکل پر سوار پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔ راؤ انوار کو عدالت لانے کے لیے دوران ایک بکتر بند گاڑی کا ٹائر بھی پنکچر ہوگیا جس کے باعث اسے کانوائے سے الگ کردیا گیا۔
کیس کی سماعت
اس سے قبل انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی تو اس دوران ڈی ایس پی قمر احمد سمیت 10 پولیس اہلکاروں کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا گیا جب کہ پولیس کی جانب سے راؤ انوار کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ ایس پی انویسٹی گیشن ملیر عابد قائم خانی نے عدالت میں پیش ہوکر استدعا کی کہ راؤ انوارکو انسداد دہشتگردی کی منتظم عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے لہٰذا ملزم اگلی سماعت پر پیش کردیا جائے گا۔ عدالت نے تفتیشی افسر کی استدعا مسترد کرتے ہوئے حکم دیا کہ راؤ انوار کو یہاں پیش کیا جائے۔
نقیب اللہ قتل کیس— کب کیا ہوا؟
13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔ بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔ تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہے۔