خبرنامہ پاکستان

نقیب کےساتھ مارے گئے دیگر 2 افراد کی تفصیلات کیلئے آئی جی پنجاب کو خط

نقیب کےساتھ مارے گئے دیگر 2 افراد کی تفصیلات کیلئے آئی جی پنجاب کو خط

لاہور:(ملت آن لائن) کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے نقیب اللہ محسود کے قتل کی تحقیقاتی ٹیم نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب کو خط لکھ کر نقیب کے ساتھ قتل کیے گئے محمد اسحاق اور محمد صابر کی حراست کی تفصیلات طلب کرلیں۔ 13 جنوری کو مبینہ پولیس مقابلے میں نقیب سمیت 4 افراد کو قتل کرنے والے سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار کے خلاف مزید مقدمات درج کرنے کے لیے یہ قانونی اقدام اٹھایا گیا ہے۔آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز خان کی رپورٹ کے بعد ماورائے عدالت قتل کا ایک اور مقدمہ درج ہوگا۔ ‘پولیس مقابلے’ میں نقیب کے ساتھ مارے گئے دیگر ملزمان کی ہلاکت کی بھی تحقیقات واضح رہے کہ محمدصابر اور محمد اسحاق کو 2016 میں احمدپور شرقیہ اور ملتان سے حراست میں لیا گیا تھا۔
محمد صابر مسجد کا مؤذن جبکہ اسحاق دینی مدرسہ میں معلم تھا۔
دونوں مقتولین بہاولپور کے علاقے احمد پور شرقیہ کے نواحی علاقے حیدر پور لنگ گراواں کے رہائشی تھے۔ دونوں کے لواحقین تحقیقاتی ٹیم کو ملیر پولیس کے خلاف بیان ریکارڈ کرا چکے ہیں اور راؤ انوار کے خلاف مقدمات کے اندراج کے لیے درخواستیں بھی جمع ہو چکی ہیں۔
نقیب کے ساتھ مارے گئے قاری اسحاق کے ورثاء کا راؤ انوار کے خلاف مقدمے کا اعلان
چونکہ مقتولین کے اغوا کی واردات پنجاب میں ہوئی، اس لیے تصدیق کے لیے آئی جی پنجاب کو خط لکھا گیا ہے۔ لواحقین کا کہنا ہے کہ صابر کو حراست میں لیے جانے کی خبر اخبارات میں بھی شائع ہوئی تھی۔
شاہ لطیف ٹاؤن پولیس مقابلہ— کب کیا ہوا؟
یاد رہے کہ راؤ انوار نے 13 جنوری کو کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں 4 مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا تعلق دہشت گرد تنظیموں سے تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والا 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔ راؤ انوار کا دعویٰ تھا کہ مبینہ طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور کالعدم لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والا نقیب اللہ جیل توڑنے، صوبیدار کے قتل اور ایئرپورٹ حملے میں ملوث مولوی اسحاق کا قریبی ساتھی تھا۔ 2 ہلاک ملزمان محمداسحاق اور محمد صابر بہاولپور کے نواحی علاقے احمدپور شرقیہ کے رہائشی تھے، جبکہ مقابلے میں مارا گیا نذر جان جنوبی وزیرستان ایجنسی کا رہنے والا تھا۔ تاہم نقیب کے اہلخانہ نے راؤ انوار کے پولیس مقابلے کو جعلی قرار دے دیا تھا جس کے بعد نوجوان کی ہلاکت کے خلاف مظاہرے کیے گئے اور چیف جسٹس پاکستان نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لیا۔
ثابت ہوگیا پولیس مقابلہ جعلی تھا اور نقیب اللہ بے گناہ مارا گیا: سربراہ تحقیقاتی کمیٹی
بعدازاں سوشل میڈیا اور میڈیا پر معاملہ اٹھنے کے بعد آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی تھی۔ تحقیقاتی کمیٹی نے نقیب اللہ کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے پولیس پارٹی کے سربراہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو معطل کرکے گرفتار کرنے اور نام ای سی ایل میں ڈالنے کی بھی سفارش کی جس پر انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ واقعے کے بعد سے راؤ انوار مفرور ہیں، 13 فروری کو نقیب قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے نئی جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیتے ہوئے مقدمے میں نامزد سابق ایس ایس پی راؤ انوار کو حفاظتی ضمانت دیتے ہوئے جمعہ (16 فروری) کو عدالت طلب کیا تھا، تاہم وہ پیش نہ ہوئے، جس پر راؤ انوار کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا گیا تھا۔