خبرنامہ پاکستان

نواز شریف کس خوفناک منصوبے پر عمل پیرا ہیں، پاکستانی جنرل کے سنسنی خیز انکشافات

نواز شریف کس خوفناک منصوبے پر عمل پیرا ہیں، پاکستانی جنرل کے سنسنی خیز انکشافات

اسلام آباد(ملت آن لائن) پاکستان کے سابق آرمی چیف اور دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر)مرزا اسلم کا کہنا ہے کہ بھارت اسرائیل کی مدد سے کنٹرول لائن پر جارحیت کر رہ اہے۔ اسرائیل نے بھارت کو ایسی ہلکی توپیں دی ہیں جو ریڈار اور سیٹلائٹ کی مدد سے ہدف کو تلاش کر کے نشانہ بناتی ہیں۔ بھارت نے پاکستان کی سرحدوں پر ہونے والی نقل و حرکتکو دیکھنے کیلئے اسرائیل سے جدید ترین ٹیکنالوجی بھی حاصل کی ہے۔ دوسری جانب امریکہ پاکستان کو اندرونی جنگ میں الجھائے رکھنا چاہتا ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ پاکستان کی اسلامی شناخت ختم کرنے کیلئے یہاں سیکولر ازم کو عام کیا جائے اور قومی پرستی کو ہوا دی جائے جبکہ قوم پرستی کے زہر کا علاج اسلامی اخوت ہے جسے ختم کرنے کی سازشیں جاری ہیں۔ امریکہ اور بھارت پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی مکمل تیاری کر چکے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں جنرل (ر)مرزا اسلم بیگ کا کہنا تھا کہ بھارت طاقت کے زور پر کشمیر کی تحریک آزادی کو کچلنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کیلئے بھارت کو گزشتہ دو سال سے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے بڑی سپورٹ ملی ہے جو ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کی شکل میں ہے۔ بھارت کو اسرائیل کی جانب سے 200کے قریب 155mm’30کیلیبر الٹرا لائٹ ہلکی توپیں دی گئی ہیں یہ توپیں ریڈار اور سیٹلائٹ کی مدد سے طویل فاصلے پر موجود ہدف کو تلاش کر کے نشانہ بنا سکتی ہیں اور آسانی سے پہاڑی علاقوں میں بھی نصب کی جا سکتی ہیں ۔ ان گنوں میں استعمال ہونےو الا گولہ بارود بھی لیزر گائیڈڈ ہوتا ہے۔ دوسری جانب بھارت نے ایسا سیٹلائٹ نظام بنایا ہے جس کی مدد سے وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں نقل و حرکت پر نظر رکھتا ہے۔ بھارت نے پوری لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر اسرائیل سے حاصل کردہتوپیں نصب کر دی ہیں مگر وہ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو کچلنے میں ناکام ہو گیا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے جنرل (ر)مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ امریکہ نے نائن الیون کے بہانے افغانستان پر حملہ کیا اور یہ سمجھا کہ وہ یہاں اپنی مرضی کی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گا لیکن 17سے 18سال گزرنے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےامریکہ کی شکست کا اعتراف کر لیا ہے کہ افغانستان کے 70فیصد علاقوں پر طالبان کا قبضہ ہے۔ اب اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہاجا سکتا ہے کہ امریکہ کو افغانستان جیسے ملک میں اسلامی حکومت منظور نہیں تو پاکستان میں بھی اس کو ایک اسلامی جمہوری حکومت منظور نہیں ہے جس طرح بنگلہ دیش کو لبرل اور سیکولر بنا کر وہاں بھارت کی بالادستی قائم کی ہے اس طرح سےامریکہ کی یہ کھلی پالیسی ہے کہ پاکستان کو لبرل اور سیکولر بنا کر یہاں اسلامی نظام کے نفاذ کی تمام کوششوں کو کچل دیا جائے۔ امریکہ اپنی اس کوشش میں ایک حد تک کامیاب ہے۔ پاکستانی قوم کی سوچ اور نظریات کو تبدیل کرنے کیلئے امریکہ نے 2007میں 1.5ارب ڈالر مختص کئے تھے۔ یہ رقم سیکولر سیاسی جماعتوں، این جی اوز اور میڈیا کے لوگوں میں تقسیم کی گئی۔ پاکستان میں ایسےٹی وی چینلزاور اخبارات موجود ہیں جو کھلم کھلا یہ کہتے ہیں کہ دین اور سیاست کو الگ کر دو تاکہ پاکستانی قوم کی سوچ کو امریکی مفادات کے مطابق تبدیل کیا جا سکے۔ اس کے نتیجے میں پاکستانی پالیسی سازوں کی سوچ 70فیصد کے قریب لبرل اور سیکولر ہو گئی ہے۔ اس کا اظہار انتخابی نتائج سے بھی ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی ، قوم پرست جماعتیں، ایم کیو ایم وغیرہ تو سیکولر ہے ہیںلیکن اب فوکس پنجاب پر ہے وہاں نظریہ پاکستان کی بات کرنے والی مسلم لیگ کو سیکولر بنانے کی تیاریاں ہیں۔ الیکشن کے ذریعے سیکولر ازم لانے میں ابھی مشکل ہے۔ پنجاب سے مسلم لیگ کو نکالنا مشکل ہے الیکشن کے نتیجے میں حکومت مسلم لیگ کی ہی بنے گی لہٰذا گزشتہ چار سال سے یہ کوششیں کی جا رہی ہیں کہ نظریاتی رخ تبدیل کرنے کیلئے ٹیکنو کریٹس پر مشتمل کوئی طویل المدتنگران حکومت بنے یا پھر فوج اقتدار پر قبضہ کرے۔ پاکستان پر بھی بنگلہ دیش فارمولا لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ سینٹ انتخابات میں سیکولر پیپلزپارٹی کو لانے کی کوششیں ہیں۔ سیکولرائزیشن کا عمل’’ن لیگ ‘‘میں بھی جاری ہے جس کے نتیجے میں نواز شریف نے محمود خان اچکزئی کو اپنا نظریاتی ساتھی کہا ہے جبکہ دو سال پہلے نواز شریف نے کہا تھا کہ میں لبرل خیالات کا مالک ہوں۔لبرل ازم اور سیکولر ازم میں کوئی فرق تو نہیں لیکن وہ بھول گئے کہ ہمارا آئین یہ وعدہ کرتا ہے کہ پاکستان کا نظام جمہوری ہو گا اور اس کی بنیادیں قرآن و سنت کی رہنمائوں اور اصولوں کے تحت طے کی جائیں گی لیکن اس کے برعکس ایسے اقدامات کئے گئے ہیں جن کے نتیجے میں بچوں کو سکولوں میں دین کی تعلیم دی ہی نہیں جاتی۔ قانون سازی میں ختم نبوت کے حساس معاملات سے چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے۔ دینی جماعتوں کے انتشار نے بھی سیکولر ازم کو پھیلنے کا موقع دیا ہے۔