خبرنامہ پاکستان

نواز شریف کی ڈکٹیٹر شپ ہے جمہوریت نہیں۔۔ عمران خان

اسلام آباد (آئی این پی) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ مجھے روکا گیا تو نوازشریف کو اپنے صوبے میں آنے نہیں دوں گا ،حکومت عدلیہ کے فیصلے نہیں مان رہی ،کیا اس ملک میں عدلیہ صرف طاقت والوں کے ساتھ ہوتی ہے، ایک بزدل اور کرپٹ آدمی نے کرپشن میں پکڑے جانے کے خوف سے راستے بند کیے پولیس نے ہمارا کھانا بند کردیا ، انصاف کے سارے ادارے ایک کرپٹ حکمران کے کنٹرولڈ ہیں جو خود امیر المومنین بننا چاہتا ہے،نواز شریف کی ڈکٹیٹر شپ ہے جمہوریت نہیں، وزیراعظم نواز شریف ملک کے لیے سب سے بڑا سیکیورٹی رسک بن گیا ہے،2نومبر کو وزیر اعظم کو بتائیں گے کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے اور عوام کیا،کارکن ڈٹے رہیں اور پر عزم رہیں، حکومت کچھ بھی کرلے،سونامی کو نہیں روک سکتی ،کارکنان گرفتار ہونے سے بچیں کیوں کہ اصل ہدف 2 نومبر ہے،ہماری اس سونامی کوکوئی نہیں روک سکے گا۔ہفتہ کو یہاں بنی گالہ میں اپنی رہائش گاہ کے باہر کارکنوں سے خطاب اور میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے ۔ عمران خان نے کہا کہ انصاف کے ادارے ایک شخص کے ہاتھ میں ہیں اور حکومت عدلیہ کے فیصلے نہیں مان رہی تاریخ گواہ ہے کہ عدلیہ نے ہمیشہ طاقت ور حکومت کا ساتھ دیا ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جایا جا رہا ہے ہمارے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہاکہ ایک بزدل اور کرپٹ آدمی نے کرپشن میں پکڑے جانے کے خوف سے راستے بند کیے پولیس نے ہمارا کھانا بند کردیا ۔ کھانا آنے دے رہے ہیں نہ کوئی سامان ۔ بتایا جائے یہ کون سی جمہوریت ہے ؟ جج کے فیصلے کی توہین پوری قوم کے سامنے ہو رہی ہے ۔ انہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ کس قانون کے تحت کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے ۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی سے پوچھتا ہوں کیوں شہر بند ہوا؟ جسٹس شوکت عزیز نے کہا تھا کہ کنٹینر نہیں لگیں گے کیا عدلیہ طاقت ور کے ساتھ ہوتی ہے ؟ سی پیک منصوبے میں صوبوں کوشامل نہیں کیا گیا ۔ چیئرمین تحریک انصاف کا مزید کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے کارکنوں کو روکا جا رہا ہے اور پولیس بنی گالہ میں کارکنوں کو آنے دے رہے ہیں نہ ہی سامان ۔ انہوں نے کہا کہ اگر نواز شریف میرا راستہ روکیں گے تو میں انہیں بھی اپنے صوبے میں آنے نہیں دوں گا ۔ عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود حکومت کی جانب سے کنٹینرز لگا کر راستے بند کیے جانے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ کیا اس ملک میں عدلیہ صرف طاقت والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا کہ ‘آپ نے ہمیں اجازت دی تھی کہ ہم پر امن احتجاج کرسکتے ہیں اور آپ نے کہا تھا کہ کوئی کنٹینر نہیں لگیں گے اور کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی تو پھر آپ کے فیصلے کا کیا بنا؟ کیا اس ملک میں عدلیہ صرف طاقتور کے ساتھ ہوتی ہے۔’میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کس قانون کے تحت یہ سب کچھ ہو رہا ہے جبکہ عدالت نے حکم دیا تھا کہ کوئی کنٹینر نہیں لگے گا۔پنجاب اور خیبرپختونخوا کے راستے میں کنٹینر لگے ہوئے ہیں، حکومت جو کچھ بھی کرے، کوئی بھی قانون توڑے، توہین عدالت کرے، اس پر سب خاموش ہیں۔پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ ایک جج فیصلہ کرتا ہے اور پوری قوم کے سامنے اس کی توہین ہورہی ہے۔نواز شریف اپنی کرپشن چھپانے کے لیے یہ سب کر رہے ہیں اور ملک کو دا پر لگا رہے ہیں۔نھوں نے کہا، ‘میں اپنی عدلیہ سے پوچھتا ہوں کہ اگر جمہوریت میں کسی حکومت نے عدلیہ کے فیصلے نہیں ماننے اور سب کے سامنے لوگوں پر تشدد کرنا ہے اور اس کے بعد جب ہمارے جیسے لوگوں کو اور کوئی حق نہیں دیا جاتا تو ہمارے پاس اور کون سا راستہ رہ جاتا ہے۔انھوں نے ایک مرتبہ پھر سوال کیا کہ اس ملک میں عدلیہ کا کوئی کردار ہے اور کیا عدالتی احکامات صرف ہمارے لیے ہی ہیں۔عمران خان کا کہنا تھا، ‘انصاف کے سارے ادارے کنٹرولڈ ہیں، ایک کرپٹ حکمران کے جو خود امیر المومنین بننا چاہتا ہے۔آخر میں عمران خان نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ عدالت اپنے فیصلے کی خلاف ورزی پر ازخود نوٹس لے۔اس سے قبل عمران خان نے پاکستان چوک پر کارکنوں سے خطاب میں کہا تھا کہ 2 نومبر کو حکومت کو بتائیں گے کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے۔عمران خان بنی گالا میں اپنی رہائش گاہ سے باہر نکلے اور کارکنوں کے ہمراہ پاکستان چوک تک پیدل چل کر گئے جہاں انہوں نے مختصر خطاب کیا۔کارکنوں اور صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے ایسے ہی پر عزم کارکنوں کی ضرورت ہے، کرپٹ مافیا کے خلاف جنگ جیت کر رہیں گے۔بنی گالا کے باہر پی ٹی آئی کے کارکنوں نے صبح اٹھتے ہی پش اپ لگاکر دن بھر چسپ رہنے کے لیے ورزش کی۔چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی رہائش گاہ کے باہر جمع کارکنوں کے عزم اور حوصلے کی تعریف کی اور ان سے خیریت بھی دریافت کی۔انہوں نے کارکنوں کو ہدایت کی کہ جتنے بھی لوگ اسلام آباد آرہے ہیں انہیں بتادیں کہ وہ کم تعداد میں اس راستے سے نہ آئیں کیوں کہ تھوڑی تعداد میں ہونے کی وجہ سے انہیں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے واضح احکامات ہیں کہ گرفتاریاں نہ کی جائیں اور نہ ہی کنٹینر لگائے جائیں لیکن اس کے باوجود گرفتاریاں کی جارہی ہیں جو غیر قانونی ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ نواز شریف کی ڈکٹیٹر شپ ہے جمہوریت نہیں، 2 نومبر کو وزیر اعظم کو بتائیں گے کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے اور عوام کیا ہوتی ہے۔عمران خان نے کارکنوں سے کہا کہ وہ ڈٹے رہیں اور پر عزم رہیں، حکومت کچھ بھی کرلے،سونامی کو نہیں روک سکتی۔انہوں نے کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ گرفتار ہونے سے بچیں کیوں کہ اصل ہدف 2 نومبر ہے، سونامی کوئی نہیں روک سکے گا۔عمران خان نے کہا کہ راولپنڈی میں نیٹ پریکٹس تھی، اصل میچ 2نومبر کو ہے۔خیبر پختونخوا اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے آنے والے کارکنوں نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر ہی کیمپ لگالیے ہیں۔منسوخ ہونے والی ریلی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہفتہ کو عوام میں شعور و آگاہی پیدا کرنے کے لیے ریلی نکالی جانی تھی، لیکن حکومت کے کریک ڈان کے باعث عوام مکمل طور پر بیدار ہوچکے ہیں اس لیے اب اس ریلی کی ضرورت نہیں رہی۔عمران خان نے کہ تمام ریاستی اداروں سے مایوس ہوکر انہوں نے سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا ہے، اس سے قبل بھی وہ مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے کرتے رہے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ پولیس نے ہمارا کھانا بند کر دیا ، یہ کونسی اور کس رنگ کی جمہوریت ہے جس میں احتجاج کرنے والوں کا کھانا تک بند کر دیا گیا ہے۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ حکومت کنٹینرز لگا کر اسلام آباد بند نہیں کرے گی۔ہمارے آدھے سے زائد کارکن بھوکے ہیں ، بتایا جائے یہ سب کچھ کس قانون کے تحت ہو رہا ہے ، پوری قوم کے سامنے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کی توہین ہو رہی ہے۔انھوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف ملک کے لیے سب سے بڑا سیکیورٹی رسک بن گیا ہے ، کیا ملک میں عدلیہ کا کوئی کردار اور ذمہ داری ہے ؟ عدالت نے پوچھتا ہوں کہ ہمارے گرفتار کارکنوں کے متعلق کیا فیصلہ ہوگا۔ پرسوں رات سے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔