خبرنامہ پاکستان

واجد ضیا کو والیم 10 کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کا حکم

واجد ضیا کو والیم 10 کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کا حکم

اسلام آباد:(ًلت آن لائن) احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا کو والیم10 کے حصول کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ پانچویں روز بھی شریف فیملی کے وکیل خواجہ حارث نے استغاثہ کے گواہ واجد ضیا پر جرح جاری رکھی،نواز شریف اور مریم نواز موسم کی خرابی کے باعث لاہور سے اسلام آباد نہیں پہنچ سکے تاہم کیپٹن صفدر عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے دونوں ملزموں کی ایک روز کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی۔

واجد ضیا نے بتایا کہ جے آئی ٹی کے مطابق آہلی اسٹیل ملز کے باقی25فیصد شیئرز1978سے 1986کے دوران فروخت ہوئے تاہم اس کا کوئی واضح ثبوت یا دستاویز دستیاب نہیں، خواجہ حارث نے استفسار کیا کہ آپ کے پاس جو جواب آیا اس میں میوچل لیگل ریکویسٹ کا حوالہ دیا گیا، کیا یہ درست ہے کہ اس میں کہیں نہیں لکھا ہوا کہ آپ کی میوچل لیگل ریکویسٹ کے ساتھ کوئی دستاویز لگائی گئیں۔
واجد ضیا نے کہا کہ خط کے مطابق یہ بات درست ہے، درخواست کے ساتھ کوئی کاغذ نہیں لگایا گیا، ہم نے 4 ایم ایل اے بھیجے، 2 کا تعلق خریدوفروخت کے معاہدے سے تھا تاہم کوئی جے آئی ٹی ممبر بیان لینے دبئی نہیں گیا، خواجہ حارث نے پوچھا کسی جے آئی ٹی ممبر نے یہ کنفرم کیا کہ خط پر موجود دستخط جج عبدالرحمن مراد کے ہی ہیں، واجد ضیا نے کہا کہ کسی رکن نے بھی جج صاحب سے رابطہ نہیں کیا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ جج عبدالرحمن نے کبھی نہیں لکھا کہ ان کا ذاتی علم ہے کہ یہ ریکارڈ دبئی کورٹ سسٹم میں موجود نہیں،واجد ضیا نے کہا کہ یہ بات کبھی نہیں لکھی گئی کہ جج صاحب کے ذاتی علم میں کچھ ایسا تھا،خواجہ حارث نے کہا کہ یہ بات بھی نہیں لکھی گئی کہ جج عبدالرحمان نے دبئی کورٹ، کسٹم یا سینٹرل بینک جا کر یہ معلومات حاصل کی یا تصدیق کی۔

واجد ضیا نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ جج عبدالرحمان نے یہ بات بھی کبھی نہیں لکھی، جے آئی ٹی کی طرف سے مجموعی طور پر یو اے ای حکومت کو 7 ایم ایل ایز لکھے گئے، 4ایم ایل ایز گلف اسٹیل اور طارق شفیع سے متعلق تھے، یہ یاد نہیں کہ گلف اسٹیل کا معاہدہ ان4 میں سے کس کے ساتھ منسلک کیا گیا، باہمی قانونی مشاورت کے تحت لکھے گئے خطوط سے متعلق ریکارڈ سربمہر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست نہیں ہے کہ جے آئی ٹی نے والیم10 کو سربمہر حالت میں پیش کیا، والیم کو سیل کرنے کے لیے زبانی استدعا کی تھی جس پر سپریم کورٹ نے اسے سربمہر کیا تاہم اس حوالے سے عدالت کے تحریری حکم کا علم نہیں، جے آئی ٹی نے والیم 10کی5 کاپیاں سپریم کورٹ میں پیش کی تھیں، ایک سربمہر آفس کاپی جے آئی ٹی کے پاس بھی ہے، والیم 10 ملنے سے جواب دینے میں آسانی ہو گی۔

خواجہ حارث نے پوچھا کیا جے آئی ٹی نے نجی بینک سے ریکارڈ لیا جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ طارق شفیع نے قرض کی رقم ادا کی، واجد ضیانے جواب دیاجے آئی ٹی نے ایسا کوئی ریکارڈ حاصل نہیں کیا، 1986میں طارق شفیع نے نئے کاروبار کے لیے بی سی سی آئی بینک سے قرضہ لیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رقم کی ادائیگی کی گئی، ایسا صرف اس صورت ہو سکتا ہے جب پرانا قرض ادا ہوچکا ہو، کوئی بینک کسی شخص کا اس وقت تک نیا اکاؤنٹ نہیں کھولتا جب تک پرانا قرضہ واپس نہ کردیا جائے تاہم جے آئی ٹی نے ایسی کوئی دستاویزحاصل نہیں کی جس سے ثابت ہو کہ طارق شفیع نے قرض ادا کیا ہو یا بقایا جات کی ادائیگی کی ہو، 25 فیصد شیئرز کی بظاہر فروخت سے 14ملین درہم کے بقایا جات ادا کیے گئے۔