خبرنامہ پاکستان

وزیراعلیٰ سندھ نےسائنس کالج میگزین مخزن کا افتتاح کردیا

وزیراعلیٰ سندھ کے

وزیراعلیٰ سندھ نےسائنس کالج میگزین مخزن کا افتتاح کردیا
کراچی:(ملت آن لائن) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ میری اپنی زندگی کے سنہری دو سال ڈی جے سائنس کالج میں گزرے ہیں،جس عمارت نے میرے قدم چومے آج اسی عمارت کے درو دیوار کو میری چشم مسرت سجدے کر رہی ہے، زمانہ طالب علمی ہی زندگی کا حقیقی مزا ہے، کالج کا زمانہ سنہری یادوں کا حسین ترین دور ہوتا ہے، جو مجھے آج بھی یاد ہے۔جمعہ کو جاری اعلامیہ کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈی جے سائنس کالج میگزین مخزن کی رونمائی اور مرحوم پروفیسر افتخار اعظمی کے نام سے منسوب بالائی گزرگاہ کے افتتاح میں بالائی گزرگاہ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعلی سندھ کے پہنچنے پر پرنسپل کالج محمد سلیم خان غوری نے اپنے اساتذہ کے ہمراہ ان کا استقبال کیا۔ وزیراعلی سندھ نے ڈی جے سائنس کالج کے اے کیو کے بلاک کو ملانے کے لیے تعمیر کردہ اسٹیل برج کا افتتاح کیا، یہ برج کالج طلبا کے روڈ حادثات کو پیش نظر رکھ کر تعمیر کیا گیا ہے جوکہ کالج کے مین بلاک سے روڈ کراس کرکے اے کیو کے بلاک کو آپس جوڑتا ہے۔ کالج کے سالانہ میگزین مخزن کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ نے کہا کہ میں ڈی۔جے۔ کالج اور اس کی انتظامیہ کا ممنون ہوں کہ انھوں نے مجھے کالج میگزین مخزن کی رونمائی اور مرحوم پروفیسر افتخار اعظمی کے نام سے منسوب بالائی گزرگاہ کے افتتاح کے قابل سمجھا اور مجھے اس بہانے یہ موقع فراہم کیاکہ میں اپنی مادر علمی کے در دولت پر حاضری کی سعادت حاصل کر وں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں آج جس مقام پر ہوں اس مقام تک پہنچانے میں اس کالج کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔اور یہ بات میں کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتا۔مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی ہے کہ ڈی۔جے۔ کالج اپنی وہی شاندار تدریسی روایات برقرار رکھے ہوئے ہے جن روایات کا میں خود بھی حصہ رہا ہوں۔انہوں نے اپنی طالب علمی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنی زندگی کے دو سال اس ڈی جے سائنس کالج میں گزارے جوکہ بہت انمول ہیں، میرا بس چلتا تو یہاں مہمان خصوصی کی نشست چھوڑ کر طلبا کے ہمراہ آخری لائین میں بیٹھ کر ہلہ گلہ کرتا اور شور مچاتا۔ انہوں نے بتایا کہ انہی دنوں میں ایک جمہوری حکومت کا تختہ پلٹ کر مارشل لاء لگا لیا گیا تھا جب میرے والد مجھے اس کالج میں روزانہ چھوڑنے آتے تھے جن کو گرفتار کیا گیا۔ میرے والد کی گرفتاری کے بعد اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو اسکول اور کالجز چھوڑنے کی میری ڈیوٹی لگی،جیسے ہی میرے والد گرفتار ہوئے تو مجھے آزادی ملی پڑھائی کم ہوگئی ، جس سے مستیوں کا دور شروع ہوا۔ گاڑی تھی، دوست تھے اور ہم تھے باقی پڑھائی پیچھے رہ گئی، یہاں ڈی جے کالج آکر فٹ پاتھ پر اپنی کار پارک کرتا اپنے دوستوں کو گاڑی میں گھماتا، میری گیارویں جماعت میں 79 فیصد مارکس جبکہ انٹر میں مارکس کم ہوگئیں۔ انہوں نے اپنی طالب علمی کی شرارتوں سے متعلق تقریب کے شرکا کو بتایا کہ میں انٹر کے بعد بغیر کسی داخلا کہ یہاں بی ایس سی کی کلاسیں اٹینڈ کرنا شروع کی۔ مجھے یاد ہے کہ ہماری کلاس کی حاضری کے دوران بہت سے کلاسمیٹ مستی کررہے تھے کہ اس وقت کلاس ٹیچر حاضری کا رجسٹر لے کر مستی کرنے والے طلبا کو کالج سے فارغ کرنے کے لیے پرنسپل آفس جارہے تھے جس پر میرے دوستوں نے مجھے کہا کہ آپ آہستہ سے جاکر کلاس ٹیچر سے رجسٹر چھین کر بھاگ جائیں اور پھر میں نے وہی کیا، جس سے میرے ہم جماعت دوست کالج سے فارغ ہونے سے بچ گئے۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ پرنسپل کالج نے جن معاملات کی توجہ دلائی ہے بلا شبہ وہ معاملات اہم اور حل طلب ہیں۔ انہوں نے پرنسپل سے مخاطب ہوتے کہا کہ میں نے یہ ساری باتیں توجہ سے سنی اور نوٹ بھی کر لی ہیں۔آپ سب جانتے ہیں کہ میں پریکٹیکل آدمی ہوں اور تقریرسے زیادہ عمل پر یقین رکھتا ہوں۔اس لیے میں آپ کویقین دلاتا ہوں کہ اس کالج کے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ میرے کالج کے جو بھی معاملات ہیں ان کو حل کرنا میری ترجیحات میں سر فہرست ہوگا۔ویسے بھی اس عظیم اور قدیم درس گاہ کا ہم پر اتنا حق تو بنتا ہے کہ اس کے مسائل فوری حل کیے جائیں۔صوبے کے وزیر اعلی کی حیثیت سے اور ڈی۔جے۔ کالج کے سابق طالب علم کی حیثیت سے مجھ پر تو دوہری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی مادر علمی کی کچھ خدمت کروں۔