پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے وزیرِاعظم عمران خان کے بیان کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے مسلح افواج سے ’منشور کی حمایت سے متعلق بیان‘ پر ان کی پوزیشن کی وضاحت طلب کرلی۔
خیال رہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے بیان دیا تھا کہ مسلح افواج بھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منشور کی حمایت کرتی ہے۔
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’آرمی کو عمران خان کے بیان پر اپنی پوزیشن واضح کرنے چاہیے، حکمراں جماعت کے منشور میں اپوزیشن سے متعلق قابلِ اعتراض چیزیں موجود ہیں۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے خاموشی کو عمران خان کے بیان کی تصدیق سمجھا جائے؟ یا پھر ہمیں یہ اخذ کرلینا چاہیے کہ قومی ادارہ دوسری سیاسی جماعتوں کے منشور کے ساتھ نہیں کھڑا ہوا۔
پارٹی کے سینئر رہنما چوہدری منظور کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ نے کہا کہ قومی اداروں کو کسی جماعت کے منشور کے بجائے حکومتی فیصلوں کے ساتھ ہونا چاہیے، کیونکہ یہ منشور حکومت کی جانب سے نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے بنائے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان آرمی کے موجودہ حکومت کے ساتھ تعاون کو سرہاتے ہیں تاہم یہ سوال ضرور ہے کہ قومی ادارے نے ایسا تعاون گزشتہ حکومتوں کے ساتھ کیوں نہیں کیا۔
پی پی پی رہنما نے سوال کیا کہ جو لوگ وطن کی خاطر اپنی جان قربان کررہے ہیں وہ کیا وہ پاکستانی نہیں ہیں؟
ماضی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ نے کہا کہ 1988 کے الیکشن سے قبل اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) اور 2002 کے انتخابات سے قبل محب وطن نامی گروہ پاکستان
پیپلز پارٹی کے خلاف ترتیب دیے گئے تھے۔
وزیرِ اعظم پر تنقید کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) عمران خان کے کنٹرول میں ہے اور وہ کم از کم 50 اپوزیشن لیڈرز کو جیل بھجوا دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر وزیرِاعظم میں ہمت ہے تو وہ ایف آئی اے کو کرپشن کے ثبوت فراہم کریں، وزیرِاعظم نیب کو بھی کرپشن کے شواہد فراہم کر کے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کررہےہیں۔
پی پی پی رہنما نے نیب سیاست سے پاک کرنے اوراس کی تفتیش کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے اس میں اصلاحات کے لیے اپوزیشن کو تعاون کی پیشکش کردی۔
انہوں نے وزیرِاعظم عمران خان کو چیلنج کیا کہ وہ ان افراد کا نام لیں جنہوں نے 11 ارب ڈالر بیرون ملک بینکوں میں بھجوائے۔
پی پی پی کے رہنما نے وزیرِ اعظم کو صدارتی آرڈیننس کے تحت حکومت چلانے کے مشورے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حکومت اپوزیشن کی جانب سے ملک کے وسیع تر مفادات میں تعاون کی یقین دہانی کے باوجود قانون سازی میں خوفزدہ ہے۔