خبرنامہ پاکستان

وزیر اعظم کی تقریر میں وانی شہید کے لہو کی حرارت۔۔اسداللہ غالب

میں نے ٹی وی آن کیا، تصویر وزیراعظم کی تھی، آواز بھی انہی کی تھی، مگر یہ الفاظ، اور یہ گھن گرج، میں نے حیرت سے آنکھیں ملیں، کانوں کو صاف کیا، یقین کرنامشکل ہو رہا تھا کہ یہ نواز شریف بول رہے ہیں مگر جیسے جیسے وہ بولتے چلے گئے،ان کے لفظوں سے لہو رسنے لگا، یہ لہو کشمیر کے شہیدوں کا تھا اور شہیدوں کے سالاراعلی برہان وانی کا تھا۔
دنیابھر میں تحریک حریت کے نامور لیڈر ہو گزرے، مگر جو کمال برہان وانی کو نوعمری میں حاصل ہوا، وہ کسی کے حصے میں نہ آ سکا،آزادی کی تاریخ برہان وانی پر رشک کیا کرے گی اور حریت کا تذکرہ ہو گا تو صرف وانی کا نام لینا کافی سمجھا جائے گا۔
کہکشاؤں میں کروڑوں کھربوں ستارے آب وتاب دکھاتے ہیں،چودھویں کا چاند اپنی دودھیا کرنوں سے پوری دنیا کو منور کر دیتا ہے ا ور ہر صبح آفتاب جہاں تاب پوری تمکنت سے جلوہ گر ہوتا ہے مگر وانی کے لہو کی چمک کے سامنے یہ ساری روشنیاں، یہ سارے نور ہیچ ہیں۔
میاں نواز شریف کی زبان پر وانی شہید کا نام آیا اور عالمی ادارہ اس کے خون کی مہک سے معطر ہو گیا۔
میں نے بڑی تقریریں سنی ہیں، اسپیچ رائٹرز بڑی بڑی تقریریں لکھتے ہیں لیکن آج تک نہ ایسی تقریر سننے کو ملی، نہ کسی نے ایسی تقریر کا مسودہ لکھا، اسے کاتب تقدیر نے لکھا اور میاں نواز شریف کے منہ میں ڈال دیا۔
میں معافی چاہتا ہوں کہ وزیر اعظم کو اکثر تنقیدکانشانہ بنایا، مجھے وزیر اعظم کا قصیدہ لکھنے کا شوق نہیں، نہ میں نے ان کی کاسہ لیسی کا ارداہ کر کے قلم پکڑا ہے، اگر کوئی اور ایسی تقریر کر کے دکھا دے تو میں اس کا بھی قصیدہ لکھوں گا، ہاں ! ایک تقریر ایوب خاں نے کی تھی اور عوام کو آج بھی یاد ہے، جس طرح بھارت شیطانیاں کر رہا ہے، بہتر ہو گا کہ واہگہ ہی نہیں پوری سرحد پر لاؤڈ اسپیکروں پر یہ تقریر چلا دی جائے، ہندو لالہ خود بھاگ کھڑا ہو اگا ۔
وزیر اعظم کو اس تقریر پر تاریخ حریت بھی مبارکباد کہے گی، میاں نواز شریف نے نہ صرف کشمیری ہونے کا حق ادا کر دیا بلکہ پاکستان کے وزیراعظم ہونے کی بھی لاج رکھ لی۔وہ بھی چاہتے تو بھارتی و زیر اعظم کی طرح گھر بیٹھے رہتے مگر ان کی فرض شناسی اور حب الوطنی ان پر غالب آئی، کشمیریوں کے لہو نے انہیں مہمیز لگائی اور وہ کلمہ حق بلند کرنے کے لئے نیویارک جا پہنچے، انہوں نے نفع نقصان کا حساب نہیں کیا، یہ بھی نہیں سوچا کہ وہ جس ملک کو مطعون کررہے ہیں،اس کے وزیر اعظم کو اپنے گھر میں ضیافت کھلا چکے ہیں، کون کہتا ہے کہ وہ تاجر ہیں ، وہ تو سودو زیاں کے چکر میں پڑے ہی نہیں اور جوکھری بات تھی ، وہ سب کے سامنے کہہ ڈالی۔
وزیر اعظم کی تقریر کولوگوں نے براہ راست سن لیا، نہیں سنا تو اخبارات میں پڑھ لیا، اور اس پر ہزاروں کے حساب سے تبصرے بھی ان تک پہنچ گئے۔ میں ان میں کیا اضافہ کروں، بس یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں اس ملک کا شہری ہوں جس کے وزیر اعظم نوازشریف ہیں اور جنہوں نے کشمیریوں پر بھارتی افواج کے گوناں گوں ظلم و ستم پر خاموش رہنا گوارا نہیں کیا، میرے مرشد محترم مجید نظامی نے مشرف سے کہا تھا کہ آپ کشمیریوں سے غداری کریں گے تو اس کرسی پر قائم نہیں رہ سکیں گے، اور میں کہتا ہوں کہ نواز شریف نے کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی ہے،اس لئے انہیں کوئی گزند نہیں پہنچاسکتا، ان کے ملک پر کوئی بری نظر نہیں ڈال سکتا۔
کشمیری وہ مظلوم قوم ہے جن کے لئے امریکی صدر اوبامہ کو بولنے کی توفیق نہیں ہوئی ، یو این او کے سیکرٹری جنرل کو بولنے کی توفیق نہیں ہوئی، ساری دنیا کو چپ لگی ہوئی ہے، وہ بھی چپ شاہ ہیں جو بلوچستان میں گم شدہ افراد پر تحریک چلاتے ہیں مگر کشمیریوں کو اندھا کیا جارہا ہے، ان کی خواتین کی بے حرمتی کی جارہی ہے، پوائنٹ بلینک نشانہ لے کر ان کی کھوپڑیاں اڑائی جا رہی ہیں مگر انسانی حقوق کے نام نہادچیمئین ان کشمیریوں سے ہمدردی کے دو بول بولنے کے لئے تیار نہیں، وہ دنیا جہان میں انسانی حقوق کی پامالی کا رونا روتے ہیں، مگر انہیں اپنے پڑوس میں کنٹرول لائن کے ساتھ ساتھ خون سے لتھڑے دریا نظر نہیں آتے، ممبئی اور پٹھا نکوٹ میں مرنے والوں سے انہیں ہمدردی ہے مگر برہان وانی کے بعد سے اب تک ایک سو نوجوان شہید کئے جا چکے، درجنوں کی بینائی ضائع کر دی گئی، سینکڑوں اپاہج اور معذور بنا دیئے گئے مگر کیا مجال کہ انسانی حقوق کے پرچارکوں کو اس ظلم و ستم پر زبان کھولنے کی توفیق ہو سکی ہو۔مگر میاں نوازشریف ان مظلوموں کے حق میں بولے اور خوب بولے، لگی لپٹی رکھے بغیر بولے، انہوں نے بھارتی جبر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی، بر صغیر میں خرمن امن کو راکھ بنانے کے جنون کی مذمت کی۔ عالمی ادارے کی خاموشی پر ماتم کیا۔
وزیر اعظم تقریر کر چکے، نہ عالمی ادارے کے کانوں پر جوں رینگی، نہ بھارت نے ہوش کے ناخن لئے، اس نے اپنے ملک میں جنگ کافوبیا کھڑا کردیا ہے، بھارتی میڈیااور وہاں کی قیادت ایک ہی بولی بول رہی ہے اور ان کی زبانیں شعلے اگل رہی ہیں، بھارت نے سرحد پر اسلحے کے ڈھیر لگا دیئے ہیں، اپنے بمباروں کو اگلے اڈوں پر پہنچا دیا ہے مگر بھارت جان لے کہ جیسے ہی کوئی بھارتی طیارہ اپنے رن وے سے اڑ کر پاکستان کی طرف مڑا تو اسے اعلان جنگ سمجھا جائے گا، پاکستان نے یہ بات کئی بار واضح کر دی ہے، اعلان جنگ کے لئے ٹریگر دبانا ضروری نہیں بلکہ ٹریگر پر انگلی رکھنا ہی جارحیت کا اعلان ہے اور اسی لمحے بر صغیر دھوئیں کی لپیٹ میں آسکتا ہے، یہ فیصلہ بھارت کو کرناہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے شرافت کی زبان استعمال کرتے ہوئے مذاکرات کی جو دعوت دی ہے، وہ ا سے قبول کرتا ہے یا رد کرتا ہے، برصغیر میں امن کا انحصار بھارتی رویئے پر ہے جو جارحیت پہ جارحیت کئے چلا جا رہا ہے اور وہ ایک ریڈلائن پر پہنچ چکا ہے جہاں سے آگے اسے سرکنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ابھی ایک ہفتہ پہلے جنوبی کوریا نے کہا ہے کہ شمالی کوریا نے جارحانہ عزائم ترک نہ کئے تو اس کے دارلحکومت پیانگ یانگ کو راکھ میں تبدیل کر دیا جائے گا، کیا یہ حق صرف جنوبی کوریا ہی کو حاصل ہے، پاکستان کو نہیں کہ وہ اپنی سلامتی اور�آزادی کا تحفظ کر سکے۔
میاں نواز شریف عالمی ادارے کے سامنے سارے حقائق رکھ چکے، اس کے باوجود ان کی بات پر کان نہیں دھرے جاتے تو یہ انسانیت کی بدقسمتی ہو گی۔
بھارت نے تو ایک تقریر کی جلن میں میاں واز ریف کے سر کی قیمت مقرر کر دی ہے۔یہ ہیں کرتوت اہنسا کے پجاریوں کے !!