خبرنامہ پاکستان

وفاقی اور صوبائی حکومتیں خوش آمدید کرپشن کا اشتہار دیدیں، سپریم کورٹ

وفاقی اور صوبائی حکومتیں خوش آمدید کرپشن کا اشتہار دیدیں، سپریم کورٹ
اسلام آباد:(ملت آن لائن) سپریم کورٹ نے محکمہ آبپاشی خیبر پختونخوا کے بدعنوان ملازم کی بحالی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر بدعنوانی کو خوش آمدید کہنے کا اشتہار دیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعیدکی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے مقدمہ کی سماعت کی، جسٹس شیح عظمت سعید نے کہا کہ ملزم ہدایت اللہ نے نیب سے پلی بارگین کی، اپنا جرم تسلیم کیا،کرپشن کی ڈیرھ کروڑ کی رقم واپس کرنے کا یہ مطلب نہیں جرم ختم ہوگیا۔ فاضل جج کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا حکومت بتائے پلی بارگین پر نااہل کتنے افسران کو نوکری پر بحال کیا ؟ جسٹس عظمت سعید نے کہا نااہلی کے بعد بحال ہونے والے تمام افسران کو فارغ کریں، 17 سال سے بنے نیب کے قانون کا ابھی تک لوگوں کو پتہ نہیں چلا، عدالت نے مقدمہ کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے متعلقہ محکمہ سے رپورٹ طلب کر لی۔ یاد رہے کہ ہدایت اللہ پر محکمہ آبپاشی میں ڈیڑھ کروڑروپے کی کرپشن کا الزام تھا ، وہ یہ رقم نیب کو واپس دے کر دوبارہ نوکری پر بحال ہوگیا تھا۔
سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو قتل کیس میں ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہا ہونیوالے دو پولیس افسران کی ضمانت منسوخی کیلئے درخواست ابتدائی سماعت کیلیے منظورکرلی اور رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے مقدمہ آئندہ ہفتہ سماعت کیلیے مقررکرنے کی ہدایت کی ہے۔
جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے دھماکا میں جاں بحق ایک شہری کی والدہ رشیدہ بی بی کی درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں فل بنچ نے بیٹی کے ساتھ جنسی زیادتی کے مرتکب باپ کی سزائے موت میں کمی کرتے ہوئے 12سال قید کی سزا سنا دی ، عدالت نے سزا میں کمی کرنے کے ساتھ دفعہ 382 کے تحت ملنے والی رعایتیں دینے کی بھی ہدایت کردی۔ مجرم محمد سرور نے قصور میں 2008ء میں اپنی بیٹی کو پانچ بار ہوس کا نشانہ بنایا تھا اور اس کی اہلیہ نے مقدمہ درج کرایا تھا۔ فاضل بنچ نے دو گھنٹے سے زائد وقت تک مقدمہ کے حقائق کا گہرائی سے جائزہ لیا، جسٹس آصف سعیدکھوسہ کا کہنا تھا کہ قابل تشویش بات یہ ہے کہ لڑکی نے نہ شور مچایا اور نہ ہی اس پر تشدد سامنے آیا، باپ نے16 سال تک بچی کو کچھ نہیں کہا تو والدہ کے روٹھ کر جانے پر ایک ہی دن میں یہ کیسے کیا اور کیوں کیا؟ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل محمد جعفر نے کہا کہ ڈی این اے میں ثابت ہو گیا تھاکہ والد نے ہی اپنی بیٹی کے ساتھ زیادتی کی، ان کا کہنا تھا ڈی این اے میں تاخیر کا ذمہ دار استغاثہ نہیں، مختلف ہسپتالوں میں گئے وہاں سے اگلے اسپتال ریفر کر دیا جاتا تھا، استغاثہ نے ایمانداری سے شواہد اکٹھے کئے جس پر عدالتوں نے سزا سنائی۔ سپریم کورٹ نے مقدمہ میں بعض حقائق واضح نہ ہونے پہ سزا میں کمی کر دی۔