خبرنامہ پاکستان

پارلیمنٹ لاجز میں شراب نوشی کے ایشو پر جھڑپ

اسلام آباد (آئی این پی) سینٹ میں پارلیمنٹ لاجز میں سینیٹرز کی شراب نوشی اور ٹیکسلا کے سکول میں ٹیچر سے ناکام عشق کے بعد ساتویں جماعت کے طالب علم کی خودکشی کے تذکرے کے دوران سینٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی اور جے یو آئی کے سینیٹر حافظ حمد اﷲ کے درمیان پارلیمنٹ لاجز میں شراب نوشی کے ایشو پر شدید جھڑپ‘ چیئرمین سینٹ نے حافظ حمد اﷲ کو نکتہ اعتراض پر لاجز میں شراب نوشی کا تذکرہ کرنے سے روکنا چاہا تو حافظ حمد اﷲ مشتعل ہوگئے اور کہا کہ آپ ہمیشہ لاجز شراب نوشی کے تذکرے سے روک دیتے ہیں‘ کیا شراب پینا قانوناً جرم نہیں ہے لاجز میں شراب کی بولتوں کے انبار لگے ہیں‘ اگر ارکان شراب نہیں پیتے تو کیا بھنگی اور ملازمین یہ مہنگی شراب خرید کر پی سکتے ہیں‘ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ تمام لوگ اپنے عیبوں پر پردہ ڈالتے ہیں آپ اگر ارکان کو تماشا بنانا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی‘ حمد اﷲ نے کہا کہ جس طرح لاجز میں چوہوں کے خاتمے کے لئے ٹھیکیدار رکھا ہے اسی طرح شرابیوں کے خاتمے کے لئے بھی کوئی ٹھیکیدار رکھ لیجئے‘ بعد ازاں چیئرمین سینٹ نے ایم کیو ایم کے طاہر حسین مشہدی کو حافظ حمد اﷲ کے جواب میں خطاب سے اور دونوں ارکان کو کراس ٹاک سے سختی سے روک دیا۔ منگل کو سینٹ میں نکتہ اعتراض پر ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت‘ شاہی سید‘ طاہر حسین مشہدی‘ فرحت اﷲ بابر‘ مشاہد اﷲ خان‘ حافظ حمد اﷲ‘ اعظم خان‘ عثمان کاکڑ اور اعظم خان سواتی نے اظہار خیال کیا اکثر ارکان نے ٹیکسلا کے سکول میں ساتویں جماعت کے طالب علم کی اپنی ٹیچر سے عشق میں ناکامی پر خودکشی کرنے کو نظام تعلیم والدین اور اساتذہ کی بے حسی قرار دیا۔ خوش بخت شجاعت نے کہا کہ پنڈی کے ایک سکول میں ایک طالب علم کی جانب سے اپنی ٹیچر کے عشق میں والد کے پستول سے خودکشی کا واقع افسوسناک ہے ہمارا اخلاقی معیار کدھر جارہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں منشیات عام ہونے کی بھی اطلاعات ہیں میں محبت کے خلاف نہیں ہوں عشق کے بڑے درجات ہیں لیکن یہ بچہ تو عشق کے معانی بھی نہیں جانتا ہوگا یہ ہمارے تعلیمی نظام کی اور اساتذہ کے معیار تعلیم کے انحطاط کی نشانی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو کس طرف لے کر جارہے ہیں یہ والدین کی اور نصاب تعلیم کی بھی بے حسی ہے۔ سردار اعظم خان نے کہا کہ چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتی کا ازالہ کیا جائے۔ سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ تمام چھوٹے صوبوں کے ساتھ حق تلفی ہورہیہے سی ڈی اے کے 32ہزار ملازمتوں میں بلوچستان کا حصہ کوٹے کے مطابق نہیں ہے۔ کسی بھی شعبے میں ملازمتوں کا حق فراہم نہیں کیا جارہا ہے۔ وفاقی حکومت میں ہزاروں آسامیاں خالی ہیں جن پر بھرتیاں نہیں کی جارہیں لگتا ہے کہ موجودہ حکومت روزگار دشمن ہے۔ حافظ حمد اﷲ نے کہا کہ سولہ سالہ لڑکے نے اپنی ٹیچر سے عشق میں ناکامی پر خودکشی کی‘ قائد اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے تسلیم کیا کہ وہاں منشیات استعمال کی جاتی ہیں چیئرمین سینٹ اس حوالے سے ہدایات جاری کریں۔ عشق اور خودکشی کے واقعات اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت کی وجہ سے ہورہے ہیں ایک طرف ہم سکیولر معاشرہ بنانا چاہتے یں جس میں گرل اور بوائے فرینڈ رکھنا اچھا سمجھا جاتا ہے پھر اس طرح کے واقعات کا گلہ کرتے ہیں پارلیمنٹ ہاؤس میں سرعام شراب پی جاتی ہے جب بھی میں شراب کی بات کرتا ہوں تو روک دیا جاتا ہے پارلیمنٹ ہاؤس میں شراب کی سینکڑوں بوتلیں ملتی ہیں کیا یہ پارلیمنٹرین پیتے ہیں بھنگی اور ملازمین تو دس ہزار کی بوتل پی سکتے ہیں چوہوں کو مارنے کے ٹھیکے کے ساتھ شرابیوں کو بھی مارنے کا ٹھیکہ دیا جانا چاہئے کیوں پارلیمنٹرین شراب پیتے ہیں کیا یہ دفعہ 62اور 63 کی خلاف ورزی نہیں اور ٹائیاں لگا کر سپریم کورٹ میں 63,62 پر دلائل دیئے جاتے ہیں۔ فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ حکومتی رکن صلاح الدین نے ایک بل پر حکومتی موقف کی مخالفت میں ووٹ دیا جس پر میں ان کی ستائش کرتا ہوں کہ انہوں نے ضمیر کے مطابق اپوزیشن کا ساتھ دیا۔ یہ ایک روشن مثال ہے اعظم خان سواتی نے کہا کہ انسای اعضاء کی خرید و فروخت کا مکروہ دھندہ بلا رکاوٹ جاری ہے یہ غیر اخلاقی اور غیر انسانی دھندہ ہے جسے ختم کرانے کے لئے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو اقدامات کرنے چاہئیں۔ طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ میں نے آج تک شراب کی بوتل پارلیمنٹ میں نہیں دیکھی۔ حافظ حمد اﷲ نے کہا کہ میں ویڈیو دکھا سکتا ہوں چیئرمین سینٹ نے دونوں سینیٹرز کو سختی سے اس موضوع پر بات کرنے سے روک دیا۔ طاہر مشہدی نے کہا کہ روانہ دس سے پندرہ افراد اٹھائے جارہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو قائد اعظم کے وژن کے مطابق پاکستان کو لبرل اور سکیولر ملک بنانا چاہتے ہیں۔ حکومت لبرل اور شریف لوگوں کو لاپتہ ہونے سے بچائے۔ نہال ہاشمی نے کہا کہ ٹی وی اشتہاروں کے حوالے سے اور تعلیمی اداروں میں غیر اخلاقی سرگرمیوں کو کمیٹی آف ہول میں زیر بحث لایا جائے۔ مشاہد اﷲ خان نے کہا کہ فرحت اﷲ باہر نے جنرل ترمذی کے ضمیر کے ووٹ کا ذکر کیا لیکن اس طرح سے ضمیر کا ووٹ اپوزیشن سائیڈ سے بھی سامنے آنا چاہئے ابھی تک تو فرحت اﷲ بابر نے بھی ضمیر کے ووٹ کا اظہار کیا۔ شاہی سید نے کہا کہ جھوٹ کی لعنت ملک کو تباہی کی طرف لے جارہی ہے ملک میں روزگار موجود ہے مگر ایمانداری سے کام کرنے والا نہیں ہے پانامہ کیس میں 246 لوگوں کے نام آئے مگر صرف ایک سیاستدان کے خلاف کیوں کیس چل رہا ہے مشاہد حسین سید نے کہا کہ امتیاز احمد ایک عظیم کرکٹر تھے انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں ان کے نام سے حکومت کسی سٹیڈیم کو منسوب کرے۔ امتیاز احمد نے نوجوانوں کو کرکٹ کی طرف راغب کیا۔ (ن غ/ ع ع)