خبرنامہ پاکستان

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سینیٹ کی حیثیت صفر ہوتی ہے: رضا ربانی

اسلام آباد (ملت + آئی این پی) چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سینیٹ کی حیثیت صفر ہوتی ہے، مشترکہ اجلاس کے لیے قومی اسمبلی اور سینٹ کے ووٹ مساوی ہونے چاہئیں، سینیٹ کے اختیارات میں اضافے کا مقصد قومی اسمبلی کے اختیارات سلب کرنا یا صوبوں کی خودمختاری پر قدغن لگانا نہیں ہے،مشترکہ اجلاس میں سینیٹ کا کردار صفر ہونے سے پارلیمنٹ میں وفاق کی اکائیوں کی آواز زیرو ہو جاتی ہے ،صوبوں اور وفاق میں رابطوں کے آئینی ادارے مشترکہ مفادات کونسل کو بھی غیر فعال بنادیاگیا اور اسے کابینہ ڈویژن کا ادارہ سمجھ لیاگیا ہے جب کہ سی سی آئی کو کابینہ کے مساوی مقام حاصل ہے، فیصلہ سازی اور پالیسی سازی میں کلیدی آئینی اختیار سے روگردانی کیلئے آج تک سی سی آئی کے سیکرٹریٹ قائم نہیں ہوسکا ۔ وہ ہفتہ کو یہاں سینیٹ کے زیراہتمام بااختیار سینیٹ، مضبوط وفاق کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کر رہے تھے ۔جو چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ۔جس سے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سپیکر خیبر پختونخوا اسد قیصر سپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ درانی پنجاب کے سئینروزیرراجہ اشفاق سرور ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولاناعبدالغفور حیدری، قائد ایوان راجہ ظفر الحق اور قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے بھی خطاب کیا ۔میاں رضا ربانی نے کہا کہ بدقسمتی سے پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی اور اب موجودہ حکومت کے دور میں بھی آئین کے تحت قدرتی وسائل پر صوبوں کے پچاس فیصد انتظامی کنٹرول کو یقینی نہیں بنایا جا سکا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل نے ضابطہ کار طے کرنا تھا جسے آج تک عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ سینٹ صوبوں کا نمائندہ ایوان ہے مگر اس کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی سینیٹ کا کردار صفر ہونے سے پارلیمنٹ میں وفاق کی اکائیوں کی آواز زیرو ہو جاتی ہے۔مشترکہ اجلاس میں سینیٹ کے ووٹ قومی اسمبلی کے ووٹوں کے برابر ہونے کے فارمولا کو اپنایا جائے۔ہم یہ کوئی نیا مطالبہ نہیں کر رہے، دنیا میں مثالیں موجود ہیں، دو ایوان ملتے ہیں تو برابری رکھی جاتی ہے۔صدر کے انتخاب میں پاکستان میں بھی یہ مثال موجود ہے۔ بلوچستان اسمبلی کے ووٹ دوسری اسمبلیوں کے برابر ہوتے ہیں۔اس اقدام سے وفاق کی اکائیوں کے حقوق کا تحفظ ہو گا۔۔ اگر مشترکہ اجلاس میں سینٹ کے تمام 104 ارکان کسی اجتماعی فیصلے پر متفق ہو بھی جائیں تو قومی اسمبلی اپنی 342 کی عددی برتری کی وجہ سے سینٹ کے متفقہ فیصلے کو رد کر سکتی ہے۔ سینٹ کے اختیارات کے حوالے سے ہم کوئی نئی بات نہیں کر رہے۔ صوبوں کے مسائل سے سب سے زیادہ سینٹ آگاہ ہوتی ہے کیونکہ یہاں چاروں صوبوں کی یکساں نمائندگی ہے مشترکہ مفادات کونسل کو فعال بنا کر صوبوں کو خود مختاری دینا ہو گی۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سینیٹ کا کردار زیرو ہو جاتا ہے۔ وزیر اعلیٰ کو سینٹ میں خطاب کا اختیار ملنا چاہیے اور اس حوالے سے آئین میں ترمیم کی جائے تاکہ کوئی بھی وزیر اعلیٰ وفاق سے شکایت سے متعلق ایوان بالا میں آ کر اسے بیان کر سکے اور اس کا بہتر انداز میں حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر سینٹ مثال قائم کر چکا ہے جب صوبائی حقوق کے لئے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی قیادت میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر مظاہرہ کیا گیا اور وزیر اعلیٰ نے ہمیں بھی 24 مطالبات سے آگاہ کیا جس پر سینٹ کی خصوصی کمیٹی ان صوبوں حقوق کی فراہمی کیلئے متحرک ہو گئی۔ وفاقی اور صوبائی اداروں کو کمیٹی میں جواب دہ بنایا گیا۔ وفاقی حکومت نے بھی سرگرمی دکھائی اور کئی اجلاس ہوئے جس پر صوبائی مسائل کا حل نکلنا شروع ہو گیا یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے سینٹ آف پاکستان سے درخواست کی ہے کہ صوبوں کے حقوق سے متعلق سینٹ خصوصی کمیٹی کو برقرار رکھا جائے۔ سینٹ کمیٹی کی رپورٹ پر عملدرآمد کی نگرانی ہو سکے۔ اسی طرح پارلیمنٹ سے قرضوں کی توثیق کی آئینی شرط عائد کی جائے تاکہ پارلیمنٹ کو معلوم ہو کہ حکومت کتنے قرض لے رہی ہے ان کا مقصد کیا ہے اور انہیں کہاں استعمال میں لایا جاتا ہے اور اگر قرض لینے کی شرح بڑھتی ہے تو پارلیمنٹ بروقت نوٹس بھی لے سکے گی۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ مضبوط صوبے ہی مضبوط وفاق کی ضمانت ہیں۔ وفاق اور صوبوں میں رابطوں کے فقدان کو دور کرنے کیلئے مشترکہ مفادات کونسل انتہائی اہم فورم ہے جہاں صوبے آئینی حقوق کی بات کر سکتے ہیں وہیں کسی بھی مسئلے پر اگر کوئی تنازعہ کھڑا ہو سکتا ہے تو سی سی آئی میں اس کا حل تلاش کر لیا جاتاہے مگر موجودہ حکومت نے اس آئینی ادارے کو بھی غیر فعال کر کے رکھ دیا ہے ایسے رویے ہی وفاق اور صوبوں میں دوریوں کا سبب بنتے ہیں مشترکہ مفادات کونسل کے بارے میں آئینی شق پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہو رہا اسے کابینہ ڈویژن کا ذیلی ادارہ سمجھ لیا گیا ہے جبکہ مشترکہ مفادات کونسل کو وفاقی کابینہ کے مساوی حیثیت حاصل ہے اور ہر نئی حکومت کے آنے پر 20 دنوں میں مشترکہ مفادسات کونسل کی تشکیل آئینی تقاضا بنا دیا گیا ہے۔ پالیسی اور فیصلہ سازی پر سی سی آئی کے ان آئینی اختیارات سے روگردانی کیلئے آج تک اس کا سیکرٹریٹ ہی نہیں بننے دیا گیا160سینیٹ کے آئینی اختیارات میں اضافے کی بات کرنے کا مطلب صوبوں کے اختیارات پر قدغن لگانا نہیں۔یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم قومی اسمبلی کے اختیارات سلب کرنا چاہتے ہیں۔سینیٹ اختیارات میں اضافے کا مقصد وفاق کی مضبوطی ہے۔ تمام اکائیوں کے آئینی حقوق کا تحفظ ہے۔سینیٹ کے اختیارات کی بات آج نہیں ہو رہی یہ 1973سے کہا جا رہا ہے۔ہم نے اب حقیقی کوششیں شروع کی ہیں۔اٹھارویں ترمیم میں اتفاق کیا گیا کہ مشترکہ مفادات کونسل وفاقی کابینہ کے برابر با اختیار ہو۔یہ ترمیم شامل کی گئی مشترکہ مفادات کونسل وزیراعظم کے حلف اٹھانے کے تیس دن کے اندر تشکیل دی جائے۔یعنی جیسے کابینہ فورا مکمل ہوتی ہے اسی طرح مشترکہ مفادات کونسل بھی فورا تشکیل پائے۔بدقسمتی سے قدرتی وسائل میں صوبوں کی پچاس فیصد ملکیت پر عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔سینٹ کے زیراہتمام سیمینار میں چاروں صوبوں نے سینٹ کے اختیارات میں اضافے کی حمایت کردی ، چیئرمین سینٹ میاں ربانی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے لیے قومی اسمبلی اور سینٹ کے ووٹ برابر کرنے کا مطالبہ کردیا ، سینٹ کے اختیارات میں اضافے کا مقصد قومی اسمبلی کے اختیارات سلب کرنا یا صوبوں کی خودمختاری پر قدغن لگانا نہیں ہے انھوں نے کہا کہ پورا سینٹ ایک طرف بھی کھڑی ہو جائے تو وہ قومی اسمبلی کے 342کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔اس لیے دونوں ایوانوں کے ووٹ برابر کرنے کے لیے ہمارے دیے گئے فارمولہ کو اپنایا جائے ۔سینٹ میں قائد ایوان راجہ ظفرالحق نے بھی سینٹ کے اختیارات میں اضافے کی حمایت کی اور کہا چیئرمین سینٹ رضا ربانی کے دور میں سینٹ ایک نئے دور میں داخل ہوا ہے سینیٹ پاکستان کی تاریخ میں نئی، تاریخی اور مثبت روایات کو فروغ دے رہا ہے۔اٹھارویں ترمیم میں سینیٹ کا کلیدی کردار رہا۔اٹھارویں ترمیم کے حقیقی ثمرات کے لیے مجوزہ اقدامات بھی کرنا ہونگے۔ سینٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اختیارات میں توازن ضروری ہے۔ سینٹ کی منظورکردہ متفقہ قرارداد کی روشنی میں سینٹ کو با اختیار بنایا جانا چاہئیے ۔سینیٹ کو قومی اتحاد کا عملی نمونہ بنانا ہے۔دہشتگردی وفاق کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ گورنینس بھی وفاق اور جمہوریت کے لیے خطرہ ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ صوبے اور وفاق متحد ہو جائیں۔ آئین کے خالقین بھی یہی ویڑن تھا۔ موجودہ حکومت کو اس کا احساس کرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ نے اداروں کی مضبوطی کیلئے کام کیا ہے۔ اداروں کو آئین اور قانون کے مطابق کام کا پابند بنانا چاہیے۔ یہی جمہوریت کا آمر اور آمریت سے بہترین انتقام ہوگا۔ صوبوں کے حقوق کے حوالے سے جائز مطالبات کو سننا ہوگا۔ سینیٹ کو با اختیار بنا کر وفاق اور صوبوں کے کمزور تعلق کو مضبوط کیا جا سکتا ہے ۔وزیراعلی سندھ مرادعلی شاہ نے کہا سینٹ کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔سینٹ کو بااختیار بنانے کے لیے قومی اسمبلی سے اختیارات لیے جائیں۔ سینٹ کو صوبوں کے مفادات کا محافظ بننا چاہئیے۔میرے والد سینیٹ کے رکن تھے۔ وفاق آئین پت عملدرآمد سے مضبوط ہوتاہے بار بار توڑنے سے نہیں۔ پیپلز پارٹی کو آئین کی بحالی پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔موجودہ وقت صوبوں اور وفاق کے درمیان یکجہتی اور اتحاد کا متقاضی ہے۔دہشتگردی اور دیگر چیلنجز سے ملکر ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ سینیٹ کو با اختیار بنانے کیلیے قومی اسمبلی سے اختیار لیے جائیں۔ سینیٹ کو صوبوں کے حقوق کا محافظ بننا چاہییایسا نہ ہو کہ سینیٹ وفاق کی سطح پر صوبوں کے حقوق پر قابض ایوان بن جائے۔سینیٹ نے مشترکہ مفادات کونسل کے حوالے سے مثبت کردار ادا کیا ہے۔ مسترکہ مفادات میں کسی مسئلے پر اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں معاملہ مشترکہ اجلاس کے بجائے سینیٹ میں جانا چاہیے۔ ہم سب کو جمہوری حکومت اور عوامی فلاح کے لیے کام کرنا چاہیے آج اکٹھے ہونے کا مقصد وفاق کو مضبوط بنانے کے طریقوں پر سیاسی و پارلیمانی اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔اشد ضرورت ہے کہ سینیٹ کے با اختیار ہو تاکہ صوبوں اور مرکز میں رابطے کا کردار ادا کر سکے۔ ۔ ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا اشد ضرورت ہے کہ سینیٹ کے با اختیار ہو تاکہ صوبوں اور مرکز میں رابطے کا کردار ادا کر سکے چاروں صوبوں سے صوبائی راہنماوں کی شرکت وفاقی کی مضبوطی کی خواہش کا ادراک ہے آمریت جتنی بھی طاقتور رہی جمہوری قوتوں نے بھی جدوجہد جاری رکھی۔دہشتگردی اور معاشی چیلنجز کا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔۔ دہشتگردی اور معاشی چیلنجز کا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا سپیکر خیبرپختونخواہ اسمبلی اسد قیصر نے کہا سینٹ صوبوں کے حقوق کا علمبردار بن کر ابھرا ہے۔ صوبوں کی مضبوطی ہے وفاق کی مضبوطی ہے۔ مضبوط اور خودمختار سینٹ ہی مضبوط پاکستان کا ضامن ہوگا سینیٹ کی مضبوطی وفاق کی مضبوطی ہے سینیٹ صوبوں کے حقوق کا علمبردار بن کر ابھرا ہے۔صوبوں کو مضبوط بنا کر ہی وفاق کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ ۔بلوچستان کی سپیکر راحیلہ درانی کا کہنا تھا سینیٹ نے قومی یکجہتی کے فروغ اور صوبوں کے حقوق کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے۔ سینیٹ کے براہ راست انتخابات ہونے چاہیءں ۔سینیٹ نے قومی یکجہتی کے فروغ اور صوبوں کے حقوق کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے۔سینیٹ نے صوبائی وزرائے اعلیٰ کو سینیٹ سے خطاب کا حق دیا جو بڑا اقدام ہے۔ سینیٹ کے براہ راست انتخابات ہونے چاہئیں۔ پنجاب کے وزیر محنت راجہ اشفاق سرور نے کہا سینیٹ پاکستان کے عوام کو جوڑنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ سیہون شریف اور بلوچستان میں ہونے والے حملے پاکستان پر حملے ہیں۔چیئرمین سینٹ کی جانب سے سینٹ کے اختیارات میں اضافے کے لیے منعقدہ سیمینار میں قومی اسمبلی کی نمائندگی صفر تھی ۔۔۔۔(رانا228 اع)