خبرنامہ پاکستان

پاناما پیپرزمیں 200 سے زیادہ پاکستانیوں کا ذکر ہےان کے حوالے سے بھی بات ہونی چاہئے:قریشی

اسلام آباد:(اے پی پی) پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ گزشتہ تین دن سے پاناما پیپرز کے حوالے سے صرف وزیراعظم میاں نواز شریف کے خاندان پر تنقید کی جا رہی ہے جو درست نہیں ہے، دیگر200 سے زیادہ پاکستانیوں کا ذکر بھی ان پیپرز میں آیا ہے، ان کے حوالے سے بھی بات ہونی چاہئے۔ تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کے حوالے سے ہم وزیراعظم محمد نواز شریف کی نیت پر شک نہیں کرتے تاہم ان کی طرف سے اعلان کردہ تحقیقاتی کمیشن کو اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے مسترد کر دیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں عدالتی کمیشن قائم کیا جائے جس کی معاونت وہ عالمی آڈٹ فرم کرے جو فرانزک آڈٹ کا تجربہ رکھتی ہو۔ جمعہ کو قومی اسمبلی میں پاناما پیپرز کے حوالے سے قاعدہ 259 کے تحت گزشتہ روز سے جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے، اس کے اثرات آئس لینڈ سمیت دنیا کے دیگر ممالک پر مرتب ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا اور یورپی ممالک سمیت دنیا بھر کی سول سوسائٹی اس معاملے سے لاتعلق نہیں رہی۔ انہوں نے کہا کہ پاناما پیپرز میں 200 سے زائد پاکستانیوں کے نام موجود ہیں۔ حکومت اگر تحقیقات کے لئے تیار ہے اور اپوزیشن کا بھی مطالبہ ہے تو اس پر اتفاق رائے ہو چکا ہے۔ اب سوال صرف اس کے طریقہ کار کے تعین کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد اس سلسلہ میں حکومتی موقف کی مخالفت یا تضحیک نہیں ہے، ہم صرف صاف شفاف تحقیقات چاہتے ہیں، ہم تسلیم کرتے ہیں کہ وزیراعظم نے تحقیقات کے حوالے سے نیک نیتی سے بات کی ہے مگر کمیشنز کے حوالے سے ہماری تاریخ اور ماضی کی روایات اچھی نہیں ہیں۔ ہم سب کو اس اہم معاملے پر مل بیٹھ کر آگے بڑھنے کا راستہ بنانا چاہئے۔ اس معاملے سے اصلاح کا پہلو بھی نکل سکتا ہے۔ امریکی صدر اوباما نے بھی کہا ہے کہ ساری دنیا کے سربراہوں کو بیٹھ کر ٹیکس اصلاحات پر غور کرنا چاہئے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا جائے اور دنیا کی وہ عالمی آڈٹ فرم کمیشن کی معاونت کرے جو فرانزک آڈٹ کا بھی تجربہ رکھتی ہو۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین دن سے صرف وزیراعظم محمد نواز شریف کے خاندان پر فوکس کیا جا رہا ہے جو درست نہیں ہے۔ پاکستان کے دیگر 200 سے زائد لوگوں کا بھی اس میں ذکر ہے۔ ان کے حوالے سے بھی بات ہونی چاہئے۔ ایف آئی اے اور سٹیٹ بینک کو بھی متحرک ہونا چاہئے۔ نیب اور ایف بی آر کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔