خبرنامہ پاکستان

پاکستان میں رعشے کا مرض تیزی سے پھیلنے لگا؛ مریضوں کی تعداد6لاکھ ہوگئی

کراچی:(اے پی پی)پاکستان میں پارکنسنز رعشا (ہاتھوں کا کپکپانے) کامرض تیزی سے پھیل رہاہے، اس وقت مریضوں کی تعداد6لاکھ ہے جو 2030تک دگنی ہوجائے گی، ملک میں رعشاکے مرض میں مبتلاافرادزیادہ تر 60 سال یااس سے زائدعمرکے ہیں لیکن اس بیماری میں 40 سے 50 سال کی عمرکے افرادبھی مبتلاہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں پارکنسنزکی بیماری میں مبتلا لوگوں کی درست تعدادسے متعلق درست اعدادوشمارموجود نہیں ہیں، پاکستان سمیت دنیا بھر میں رعشے کا عالمی دن 11 اپریل کو منایاجائیگا،پاکستان پارکنسنز اینڈ موومنٹ ڈس آرڈر سوسائٹی کے صدر ڈاکٹرنادر علی سید، ڈاکٹر عبدالمالک اورہارون رشید نے جمعے کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایاکہ پاکستان میں خواتین کے مقابلے یہ مرض مردوں میںزیادہ رپورٹ ہورہاہے، پارکنسنزایک دماغی مرض ہے جو بہت ہی آہستگی سے بڑھتا ہے اور مریضوں میں اس کی علامات ظاہر ہونے میں کئی برس لگ جاتے ہیں،یہ مرض اس وقت لاحق ہوتاہے جب کسی شخص کادماغ ڈوپامین ( Dopamine) نامی کیمیکل بناناکم کردیتا ہے۔ 40 سال سے کم عمر اور20 سال سے زائد عمرکے افراد میں بھی یہ مرض دیکھاگیاہے جوتشویش ناک بات ہے جبکہ مرض کاکم یازیادہ علاج ہونے سے بھی یہ مرض بگڑجاتاہے۔ یہ کیمیکل 60 سال کی عمرمیں کم ہوناشروع ہوتا ہے،ڈوپامین کی کمی سے کسی بھی شخص میں حرکات و سکنات اور تاثرات ظاہرکرنے کی صلاحیت ختم ہونا شروع ہوجاتی ہے اگرچہ یہ بیماری جان لیوا نہیں ہے مگر اس کے نتیجے میں ہونے والی پیچیدگیاں اکثر جان لیوا ثابت ہوتی ہیں، بدقسمتی سے پاکستان میں رعشہ کی بیماری کے حوالے سے معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں اور نہ صرف عام لوگ بلکہ ڈاکٹرز بھی اس مرض کی علامات اور اس کی تشخیص کے طریقہ کار سے لاعلم ہیں ،یہ ایک بیماری ہے جو کہ بڑھاپے کا ردعمل نہیں لیکن یہ ایک قابل علاج مرض ہے۔ یہ ایک زندگی بھر رہنے والا مرض ہے اور تمام عمر اس کا علاج جاری رہتا ہے اور علاج کے نتیجے میں لوگ عام زندگی گزارسکتے ہیں، ڈاکٹرعبدالمالک کاکہنا تھاکہ پاکستان میں رعشاکے مریضوں پرمبنی سپورٹ گروپس بنانے کی ضرورت ہے اورایسے گروپس ملک کے طول وعرض میں قائم کیے جانے چاہئیں، بیماری کے متعلق ڈاکٹروں اورمعاشرے کے عام افراد میں آگہی پیداکی جائے اوراس سلسلے میں پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیابہت اہم کرداراداکرسکتے ہیں،پاکستان پارکنسنزاینڈموومنٹ ڈس آرڈر سوسائٹی اس سلسلے میں اپنا کردار اداکرنے کے لیے بھرپورطریقے سے کوشاں ہیں۔