پاکستان اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے حکام کے درمیان آج اسلام آباد میں مذاکرات ہوں گے جہاں پاکستان منی لانڈرنگ کے ذریعے دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے، ہنڈی اور حوالہ سمیت غیر قانونی ترسیلات زر کی روک تھام کے لیے ضروری اقدامات پر انہیں قائل کرنے کی کوشش کرے گا۔
رپورٹ کےمطابق ایف اے ٹی ایف کی شاخ ایشیا پسیفک گروپ (اے پی جی) کی ٹیم 12 روزہ دورے پر پاکستان پہنچی ہے جہاں وہ اس حوالے سے ہونے والے معاملات کا جائزہ لے گی۔
اے پی جی کی یہ ٹیم مختلف اداروں اور ایجنسیوں کے نظام، نیٹ ورک اور طریقہ کار کا جائزہ لے گی تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ کیا پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے اپنے نام کو خارج کرنے کے لیے عالمی طور پر کیے گئے وعدوں پر عمل کررہا ہے یا نہیں۔
اے پی جی کے وفد میں برطانیہ کی اسکاٹ لینڈ یارڈ، امریکی وزارت خزانہ، مالدیپ کے مالی انٹیلی جنس یونٹ، انڈونیشیا کے وزارت خزانہ، پیپلز بینک آف چائنا، ترکی کا جسٹس ڈپارٹمنٹ اور اے پی جی کے تین اراکین شامل ہیں جو پاکستان کو دیے گئے 10 نکاتی ایجنڈے پر اقدامات کا جائزہ لیں گے۔
خیال رہے کہ ایف اے ٹی ایف نے رواں سال فروری میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس وقت کی حکومت نے ایف اے ٹی ایف سے 10 نکاتی ایجنڈے پر مذاکرات کیے تھے تاکہ ستمبر 2019 تک گرے لسٹ سے اخراج کے لیے اقدامات کیے جاسکیں۔
حکومت نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ اس حوالے سے تمام اہم قوانین کو حتمی شکل دی گئی ہے اور اس حوالے سے فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) ایکٹ 1974، فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ (پیرا) 1947، کسٹمز ایکٹ 1969 اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 پر قانون سازی کو وزیراعظم اور کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
اے پی جی نے اگست میں پاکستان کے اینٹی منی لانڈرنگ اور انسداد دہشت گردی فنانسنگ کے قوانین میں خامیوں کی نشاندہی کی تھی۔
دونوں فریق قانونی، انتظامی اور دیگر امور کے حوالے سے مشترکہ طور پر ان اقدامات کا جائزہ لیں گے جہاں پاکستان کی جانب سے دیگر ممالک کے ساتھ پیچیدہ معاملات پر کئے گئے مختلف معاہدوں پر بھی بات کی جائے گی۔
اے پی جی نے پاکستان کونظام، ایجنسیوں اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے عالمی ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے حوالے سے خامیوں پر واضح کردیا ہے اور کہا ہے کہ این جی اوز اور خیراتی اداروں، منافع بخش اداروں میں شفافیت اور انسداد دہشت گردی مالی معاونت سے نمٹنے کے لیے قانونی طریقہ کار کافی نہیں ہے۔