خبرنامہ پاکستان

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سی پیک کے تحت چین سے تمام منصوبوں کیلئے لئے گئے قرض پر شرح سود کی تفصیلات طلب کر لیں

اسلام آباد (ملت + آئی این پی) پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سی پیک کے تحت چین سے تمام منصوبوں کیلئے لئے جانے والے قرض پر شرح سود کی تفصیلات طلب کر لیں‘چیئرمین کمیٹی نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ سی پیک کے تحت چین کتنا قرض دے رہا ہے‘ کتنی رقم سرمایہ کاری ہے ان میں سے کتنی رقم کم شرح سود پر مل رہی ہے ،سب کی الگ الگ تفصیلات فراہم کی جائیں‘ کمیٹی کو بتایا جائے کہ چین دنیا کے جن دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کرتا ہے وہاں شرح سود کیا وصول کرتا ہے ‘عالمی بنک اور ایشیائی بنک کس شرح سود پر قرضے فراہم کرتے ہیں کیونکہ یہ عوام کا پیسہ ہے انہوں نے ہی ادا کرنا ہے جبکہ سیکرٹری پانی و بجلی یونس ڈھاگا نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ سی پیک کے تحت 12114 میگا واٹ کے منصوبوں پر کام جاری ہے‘بجلی کے کل 19 منصوبے ہیں‘ کول کے 3960 میگا واٹ ‘ ہائیڈرو کے 2714 میگا واٹ ‘ سولر انرجی کے 900 اور باہر سے برآمد کئے گئے کوئلہ کے 4260 میگا واٹ بجلی کے منصوبوں پر کام جاری ہے‘درآمد کردہ کوئلے سے پورٹ قاسم میں 1320 میگا واٹ کا منصوبہ رواں سال مکمل ہو جائیگا ‘یہ سارے سرمایہ کاری کے منصوبے ہیں ان پر سود کے حوالے سے حکومت کو کچھ ادا نہیں کرنا‘ ہائیڈرو کے علاوہ تمام توانائی منصوبوں کا صرف فرنٹ ٹیرف ہے‘ پورٹ قاسم میں کوئی پاکستانی کمپنی کام نہیں کر رہی‘ پورٹ قاسم میں کوئلے کے بجلی منصوبے پر قطری اور چینی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو چیئرمین کمیٹی سیدخورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں ممبران کمیٹی ‘ وزارت منصوبہ بندی‘ وزارت پانی و بجلی ‘ آڈٹ حکام سمیت دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کو وزارت منصوبہ بندی کے حکام نے سی پیک کے تحت بجلی کے منصوبوں پر بریفنگ دی۔ چیئرمین کمیٹی سید خورشید شا ہ نے سیکرٹری منصوبہ بندی کی کمیٹی میں عدم شرکت پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ پارلیمنٹ بلا رہی ہے مگر وہ نہیں آتے۔ حکام کی طرف سے بتایا گیا کہ ایڈیشنل سیکرٹری منصوبہ بندی اجلاس میں نمائندگی کر رہے ہیں تاہم چیئرمین خورشید شاہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایڈیشنل سیکرٹری سے زیادہ تو سیکشن آفیسر معلومات رکھتا ہے ان کی جگہ اسے بلا لیتے ہیں ۔ سیکرٹری پانی و بجلی یونس ڈھاگہ نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سی پیک کے تحت 12114 میگا واٹ کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ سی پیک کے تحت بجلی کے کل 19 منصوبے ہیں۔ کول کے 3960 میگا واٹ ‘ ہائیڈرو کے 2714 میگا واٹ ‘ سولر انرجی کے 900 اور باہر سے درآمد کئے گئے کوئلہ کے 4260 میگا واٹ بجلی کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے کہا کہ چین سے لیاگیا کل قرضہ 35 ارب ڈالر ہے۔ چین سے لئے گئے قرض کی کیا شرائط ہیں اور اس پر شرح سود کتنا ہے اس حوالے سے کمیٹی کو آگاہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی بتایا جائے کہ چین دنیا کے جن دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کرتا ہے وہاں شرح سود کیا وصول کرتا ہے جبکہ عالمی بنک اور ایشیائی بنک کس شرح سود پر قرضے فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ عوام کا پیسہ ہے انہوں نے ہی ادا کرنا ہے۔ سیکرٹری پانی و بجلی یونس ڈھاگہ نے سی پیک کے تحت بجلی کے منصوبوں پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ درآمد کردہ کوئلے سے پورٹ قاسم میں 1320 میگا واٹ کا منصوبہ رواں سال دسمبر میں مکمل ہو جائے گا اس کا پیشگی ٹیرف 8.3 سینٹ ہے۔ یہ سارے سرمایہ کاری کے منصوبے ہیں ان پر سود کے حوالے سے حکومت کو کچھ ادا نہیں کرنا۔ ہائیڈرو کے علاوہ تمام توانائی منصوبوں کا صرف فرنٹ ٹیرف ہے۔ پورٹ قاسم میں کوئی پاکستانی کمپنی کام نہیں کر رہی۔ پورٹ قاسم میں کوئلے کے بجلی منصوبے پر قطری اور چینی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ رکن کمیٹی شیخ رشید احمد نے سوال کیا کہ قطری کمپنی کا مالک کون ہے نام بتایا جائے۔ رکن کمیٹی میاں عبدالمنان نے کہا کہ اب قطری دوائی بھی آنے والی ہے ۔ رکن کمیٹی جنید انوار نے کہا کہ کیا قطر یا کسی کمپنی پریہ پابندی ہے کہ وہ یہاں کام نہیں کر سکتے۔ آرمی چیف بھی قطر گئے تھے اگر معاہدوں پر پابندی ہے تو انہیں بھی جانے سے روک دیتے۔ رکن کمیٹی شیخ رشید نے کہا کہ ہر چینی کمپنی کے پیچھے کوئی نہ کوئی چہرہ ہوتا ہے ۔ سیکرٹری پانی و بجلی یونس ڈھاگہ نے کمیٹی کو بتایا کہ گوادر میں ہمیں بہت بڑی سرمایہ کاری کی امید ہے ۔ گوادر میں بجلی کا 300 میگا واٹ کا منصوبہ نے جسے چینی کمپنی تعمیر کرے گی۔ ابھی تک گوادر نیشنل گرڈ سے منسلک نہیں پہلے یہ ایران سے آنے والی ٹرانسمیشن لائن سے منسلک تھا۔ وزیر اعظم نے گوادر کو نیشنل گرڈ سے منسلک کرنے کی ہدایت کی ہے۔ نیشنل گرڈ سے منسلک کرنے میں ڈیڑھ سال کا عرصہ لگے گا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت ایران سے 105 میگا واٹ بجلی درآمد کی جا رہی ہے۔ تھر میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے میں70 میٹر تک کھدائی ہو چکی ہے جبکہ 130 میٹر پر کوئلہ نکلے گا۔ تھر کول کا پیشگی ٹیرف 8.5 سینٹ ہے۔ تھر میں 175 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں جو صدیوں کیلئے کافی ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ سکھی کینال ہائیڈرو پاور پروجیکٹ 2022ء میں مکمل ہو گا۔ منصوبے کی مجموعی لاگت ایک ارب 70 کروڑ ڈالر ہے۔ تمام منصوبے 25 سال بعد متعلقہ صوبوں کو منتقل ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کروٹ پاور پروجیکٹ دریائے جہلم پر تعمیر کیا جا رہا ہے ۔ نیلم جہلم پاور پروجیکٹ مارچ 2018ء میں بجلی کی پیداوار شروع کر دے گا۔ نیلم جہلم پاور پروجیکٹ میں 70 میگا واٹ تک کم قیمت بجلی بنے گی۔ یونس ڈھاگہ نے کہا کہ اب پاکستا ن میں امپورٹڈ کوئلے پر کوئی نیا پروجیکٹ نہیں لگے گا۔ کوئلے کے اب جتنے بھی منصوبے لگیں گے اس میں مقامی کوئلہ استعمال ہو گا۔ پاکستان کا کوئلہ نرم کوئلہ ہے دنیا بھر میں 17 فیصد کول پروجیکٹ میں یہی نرم کوئلہ استعمال ہوتا ہے۔ سی پیک سمیت بجلی کے دیگر منصوبوں کی پیداواری لاگت وقت گزرنے کے ساتھ مزید کم ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ نیلم جہلم پن بجلی منصوبہ مشکلات کا شکار رہا ہے منصوبے سے 2018ء میں بجلی کی پیداوار شروع ہو جائے گی۔ ٹرانسمیشن لائن پر کافی کام کر لیا گیا ہے ۔ تکنیکی شعبے میں اب کوئی مسئلہ نہیں ۔ نیلم جہلم سے 969 میگا واٹ سے بھی زیادہ بجلی پیدا ہو سکتی ہے۔ اضافی پیداوار کا انحصار پانی کی دستیابی پر ہے۔ مٹیاری لاہور ٹرانسمیشن لائن 2019ء تک مکمل ہو جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ بجلی کے 19 میں سے 4 منصوبوں پر کام شروع نہیں ہو سکا۔ گزشتہ ایک ہفتے سے گوادر میں زیرو لوڈ شیڈنگ کر دی گئی ہے۔ وزارت منصوبہ بندی حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ خصوصی اقتصادی زونز کا مقصد یہ ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار آ سکیں ۔ سی پیک تحت پورے ملک میں 9 اقتصادی زونز بنائے جا رہے ہیں۔ رکن کمیٹی سینیٹر عبدالغفور حیدری نے کہاکہ بلوچستان کو کوٹے کے حساب سے پوری بجلی نہیں دی جا رہی۔ بلوچستان کی ٹرانسمیشن لائن میں کوٹے کی بجلی کا لوڈ برداشت کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے جس پر پانی و بجلی کے حکام نے بتایا کہ بلوچستان میں ابھی تک بجلی کے پورے بل ادا کرنے کا رواج نہیں اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومت سبسڈی کی مد میں بجلی کے بل ادا کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے زمینداروں سے 10 ہزار روپے بھی ریکور نہیں ہو رہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے 118 فیڈرز میں زیرو لوڈ شیڈنگ ہے مارچ 2018ء تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کر دی جائے گی۔ سی پیک کے تحت 34.4 ارب ڈالر بجلی کے منصوبے ہیں۔ وزارت منصوبہ بندی حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ سرمایہ کاری ہے اس کے لئے چینی کمپنیاں اپنی حکومت سے قرض لیں گی۔ 35 ارب ڈالر قرضہ نہیں سرمایہ کاری ہے تاہم روڈ انفراسٹرکچر کیلئے 6 ارب ڈالر قرضہ ہے ۔ چینی حکومت ریلوے کے لئے آسان شرائط پر8.2 ارب روپے کا قرضہ دے گی۔ اس وقت تک ہمارے پاس سی پیک منصوبوں کا مجموعی حجم47 ارب 60 کروڑ ڈالر ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے چین سے لئے جانے والے قرض پر شرح سود کی تمام تفصیلات طلب کر لیں۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ سی پیک کے تحت چین کتنا قرض دے رہا ہے‘ کتنی رقم سرمایہ کاری ہے ان میں سے کتنی رقم کم شرح سود پر مل رہی ہے سب کی الگ الگ تفصیلات فراہم کی جائیں۔ ۔۔۔(رانا228ار)