خبرنامہ پاکستان

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے عدالت جانے کی ہدایت کردی

اسلام آباد: (ملت+اے پی پی) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے آڈیٹر جنرل آفس کو ایجنسیوں کے آڈٹ نہ کرانے کا معاملہ عدالت میں لے جانے کی ہدایت کر دی ہے جبکہ کمیٹی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بینک پاسپورٹ سروسز چارجز کی مد میں 2006ء سے صارفین سے اس مد میں 40 کروڑ روپے وصول کر لیے گئے ہیں۔ جس پر کمیٹی نے اظہار برہمی کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ وزارت خزانہ سے اضافی وصولی کی منظوری لی جائے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سید خورشید شاہ کے زیر صدارت ہوا۔ آڈیٹر جنرل رانا اسد امین نے کہا کہ آئی ایس آئی ہو یا آئی بی ان کا آڈٹ ہونا چاہیے، اگر سیکرٹ چیزیں ہیں تو ہم بھی باہر سے نہیں آئے ہوئے، آڈیٹر جنرل کے آفس پر اعتماد کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر ہمیں آڈٹ کرنے کی ہدایت کی گئی لیکن جب آئی بی کے پاس آڈٹ کے لئے گئے تو انہوں نے کہا کہ آپ ہمارا آڈٹ نہیں کر سکتے۔ وزارت قانون اور اٹارنی جنرل نے بھی یہی رائے دی۔ اس پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے آڈیٹر جنرل آفس کو معاملہ عدالت میں لے جانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ادارہ آڈٹ سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے۔ آڈٰیٹر جنرل نے کمیٹی کے استفسار پر بتایا کہ جن بینکوں میں حکومتی شیئرز ہیں وہ بھی آڈٹ نہیں کراتے۔ وہ بینک کہتے ہیں کہ پہلے بینک کا آڈٹ کرکے تو دکھاؤ۔ بینک کے آڈٹ معاملے کو بھی سپریم کورٹ لے کر جا رہے ہیں۔ کمیٹی کو سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ بینک پاسپورٹ سروسز چاجز کی مد میں 2006ء سے صارفین سے 23 روپے غیر قانونی چارج کرتا رہا حالانکہ دو روپے لینے کی منظوری تھی لیکن 2006ء کے بعد سروسز چارجز میں اضافے کی منظوری نہیں لی گئی۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ اب صارفین سے چالیس کروڑ روپے سے زائد وصول کی گئی ہے جس پر چیئرمین کمیٹی خورشید شاہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب ادارے غیر قانونی کام کریں گے تو عام آدمی کیسے پیروی کرے گا، حکومتیں عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کیلئے ہوتی ہیں، عوام کو لوٹنے کیلئے نہیں، کمیٹی نے ہدایت کی کہ وزارت خزانہ سے اضافہ رقم وصولی کی منظوری لی جائے۔