خبرنامہ پاکستان

پبلک اکاونٹس کمیٹی؛ ایف بی آر اور آڈٹ حکام میں ٹھن گئی

اسلام آباد: (ملت+آئی این پی) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں کسٹم ڈیوٹی میں دی گئی اربوں روپے کی چھوٹ پر بننے والے آڈٹ پیراؤں پر ایف بی آر اور آڈٹ حکام میں ٹھن گئی، دونوں محکموں کے افسران کی ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ، دونوں محکموں کی خواتین بھی آ،نے سامنے آ گئیں اور ڈی اے سی میں ایک دوسرے پر غیر سنجیدگی کے الزامات لگا دئیے،چیئرمین کمیٹی نے تمام پیرائے واپس ڈی اے سی میں بھجواتے ہوئے کہا کہ دونوں بڑے محکمے ہیں ، میں نہیں چاہتا کہ انکی جگ ہنسائی ہو، تمام پیرے ڈی اے سی میں ڈسکس کئے جائیں۔قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس منگل کو چیئرمین سید خورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں ممبران کمیٹی سردار عاشق گوپانگ، عارف علوی ، شاہدہ اختر علی، شیخ رشیداحمد، محمود خان اچکزئی ، جنید انوار چوہدری، جاوید اخلاص ، عبد الرشید گوڈیل، شفقت محمود اور ایف بی آر، وزارت خزانہ ،قانون انصاف اور آڈٹ حکام نے شرکت کی۔اجلاس میں ایف بی آر کے مالی سال 2013-14کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ آڈٹ حکام نے آگاہ کیا کہ ایف بی آر نے واجبات کی ریکوری نہیں کی جبکہ سال 2013-14 میں 6ارب سے زائد کی کسٹم ڈیوٹیز معاف کی گئیں۔ کمیٹی نے ایف بی آر کی سپلیمنٹری گرانٹ پر تحفظات کا اظہار کر دیا۔رشید گوڈیل نے کہا کہ آپ بادشاہ لوگ ہو،پیسے اکٹھے کرتے ہو جدھر مرضی خرچ کر سکتے ہو لیکن کوئی مروجہ طریقہ کار تو اختیار کیا جائے۔ چیئرمین ایف بی آر نثار محمد خان نے کہا کہ ایف بی آر میں سی ایف او کی اسامی ہی نہیں ہوتی۔ چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے چیئرمین ایف بی آر کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین صاحب آپ تیاری کر کے نہیں آئے ہیں، ممبران کچھ پوچھ رہے ہیں آپ کہیں اور سے پڑھ رہے ہیں۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ مقدمات میں تین سو سے چار سو ارب روپے کے ٹیکسز کی وصولیاں پھنسی ہوئی ہیں،ٹیکس تنازعات کے حل کے لیے متبادل طریقہ کار کی ضرورت ہے،اربوں روپے کی وصولی کے لیے دس لاکھ روپے سے زیادہ کا وکیل نہیں کرسکتے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کیس کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے وکیل کیا جانا چاہیے،اگر چار سور ارب کے پیراز عدالتوں میں زیر التوا ہیں تو ان پر مارک اپ ہی چوبیس ارب کے قریب بنتا ہے،اس چیز کی اہمیت کو دیکھنا ہو گا۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ میں دس لاکھ روپے سے زاید فیس کا وکیل کر ہی نہیں سکتا۔کمیٹی نے ایف بی آر سے دس لاکھ روپے فیس والے کیسز کی تفصیلات مانگ لیں۔سال 2013-14 میں 6ارب سے زائد کی کسٹم ڈیوٹیز معاف کئے جانے سے متعلق آڈٹ پیرے پر ایف بی آر حکام نے کہا کہ مقامی سطح پر تیار ہونیوالی مصنوعات اگر درامد کی جاتی تھیں تو ہم اس پر رعایت نہیں دیتے،اگر انجیرنگ بورڈ تصدیق کردیاتا ہے کسی چیز کا تو ہم اس پر چھوٹ دیتے ہیں، اگر فائیو سٹار ہوٹل کیلئے کوئی فرنیچر یا فٹنگز درامد کی جاتی ہیں تو اس پر چھوٹ دی جاتی تھی یہ اب بھی ہے۔پی اے سی اجلاس میں تین سال سے التوا کا شکار پیرے پر آڈٹ حکام اور چیئرمین ایف بی آر کے درمیان اختلاف پیدا ہو گئے،اجلاس میں بار بار چیئرمین ایف بی آر کی جانب سے آڈٹ حکام پر ڈی اے سی میں مؤقف تسلیم نہ کیے جانے کی شکایت کی جس پردونوں محکموں کے افسران نے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی ، محکموں کی خواتین بھی آنے سامنے آ گئیں اور ڈی اے سی میں ایک دوسرے پر غیر سنجیدگی کے الزامات لگا دئیے۔ ایف بی آر حکام نے کہا کہ جب ڈی اے سی میں بات کی جاتی ہے تو آڈٹ حکام کہتے ہیں کہ معاملہ پی اے سی میں ڈسکس کریں گے۔ محمود اچکزئی نے کہا کہ آپ نے تین سال کا کام دو ہفتوں میں کیا ہے آپ کیلیے گولڈ میڈل کی سفارش کی جانی چاہیے۔عارف علوی نے کہا کہ اگر آپ نے دو ہفتے میں بہت سا کام کر لیا ہے تو آپ آڈٹ سے رجوع کرتے، آڈٹ والے معاملہ تب ہی پی اے سی میں لاتے ہیں جب انہیں محکمے میں کوئی گڑبڑ نظر آتی ہے، یہ کمنٹس ڈی اے سی میں دینے والے تھے اپ یہاں دے رہے ہیں ، پی اے سی کا وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا ہے کہ آڈٹ والے ڈی اے سی کے بعد بات ہی نہیں سنتے۔ جنید انوار چوہدری نے کہا کہ آج تک پی اے سی میں کبھی یہ بات سامنے نہیں آئی آپ اس پر اعتراض اٹھا رہے ہیں۔ کمیٹی ارکان نے ایف بی آر اور آڈٹ کی جانب سے پیراز نہ نمٹائے جانے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ چیئرمین کمیٹی نے تمام پیرائے واپس ڈی اے سی میں بھجواتے ہوئے کہا کہ دونوں بڑے محکمے ہیں ، میں نہیں چاہتا کہ انکی جگ ہنسائی ہو، تمام پیرے ڈی اے سی میں ڈسکس کئے جائیں۔(ار)