خبرنامہ پاکستان

چیئرمین پی ٹی وی کو ادا کیے گئے 27 کروڑ تقرری کرنے والے سے لیں گے، سپریم کورٹ

چیئرمین پی ٹی وی کو ادا کیے گئے 27 کروڑ تقرری کرنے والے سے لیں گے، سپریم کورٹ

اسلام آباد:(ملت آن لائن) سپریم کورٹ نے عطا الحق قاسمی کو چیئرمین پی ٹی وی بورڈ مقرر کرنے کے معاملے میں پرویز رشید اور فواد حسن فواد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ اگر تقرری غیرقانونی ہے تو کیوں نہ تقرری کرنے والے سابق وزیراعظم کو طلب کرکے ان سے وصولی کی جائے۔ گزشتہ روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے منیجنگ ڈائریکٹر پی ٹی وی کی عدم تقرری کے بارے میں ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی وی کی مبینہ طور پر غیر قانونی تقرری کا نوٹس لے کر عطا الحق قاسمی، اس وقت کے وزیراطلاعات سینیٹر پرویز رشید، وزیر اعظم کے سیکریٹری فواد حسن فواد، موجودہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ، سابق سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ندیم حسن آصف اور سابق ایڈیشنل سیکریٹری اطلاعات صبا محسن رضا کو نوٹس جاری کردیا اور قرار دیا کہ سیکریٹری اطلاعات عطاالحق قاسمی کی بطور چیئرمین پی ٹی وی بورڈ تعیناتی کے بارے میں عدالت کو مطمئن نہیں کرسکے اور نہ ہی یہ بتا سکے کہ چیئرمین بورڈ بھاری تنخواہ اور مراعات حاصل کرنے کے حقدار تھے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ اگر تقرری غیرقانونی ہے تو بطور چیئرمین پی ٹی وی عطا الحق قاسمی کو تنخواہ اور مراعات کی مد میں ادائیگی بھی غیر قانونی ہے جو ان سے وصول کی جائے گی، سمری پر دستخط نوازشریف نے کیے ہیں چاہیں تو انھیں بھی بلاسکتے ہیں، یہ کسی کا ذاتی نہیں غریب عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ہے۔ چیف جسٹس نے عدالتی فعالیت پر تنقید مسترد کرتے ہوئے کہاکہ جوڈیشل ایکٹوازم کو بند کرنے کا کہا جارہاہے۔ چیف جسٹس نے ایک ٹی وی اینکر کا نام لیا اور کہا کہ انھوں نے اپنے پروگرام میں کہا کہ عدالتی فعالیت بہت زیادہ ہوگئی، اسے بند کردیا جائے۔ سیکریٹری اطلاعات احمد نواز سکھیرا نے عدالت کو بتایا کہ ایم ڈی پی ٹی وی کا ایڈہاک چارج عطا الحق قاسمی کے پاس ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایڈہاک ازم مسائل کا حل نہیں، 26 فروری 2016 سے پوسٹ خالی ہے، کون ذمے دار ہے جس نے ایک سال 7 ماہ تک سمری نہیں بھیجی، عدالت کے استفسار پر سیکریٹری اطلاعات نے تسلیم کیا کہ عطاالحق قاسمی کا چارج سنبھالنا نامناسب تھا جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ نامناسب نہیں غیر قانونی ہے، ہم ان سے ریکوری کریںگے۔
سیکریٹری اطلاعات نے کہاکہ بطور چئیرمین ان کی تنخواہ 15لاکھ مقرر ہوئی اور 2 سال میں 27 کروڑ 80 لاکھ ادائیگی ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عطا الحق قاسمی کو2 سال کے اندر 27 کروڑ روپے تنخواہ و مراعات کس قانون کے تحت دی گئیں ، اگر سابق وزیراعظم نے غلط تعیناتی کی ہے تو یہ رقم ان سے ہی وصول کی جائے، اگر یہ ثابت ہوگیاکہ عطا الحق قاسمی نے تنخواہ اور مراعات غلط حاصل کی تو انھیں یہ رقم واپس کرنا ہوگی، غریب ملک ہے ٹیکس ادا کرنے والوں کا پیسہ اس طرح کیسے بانٹا گیا۔ احمد نواز سکھیرا نے عدالت کو بتایا کہ عطاالحق قاسمی کو چیئرمین پی ٹی وی بورڈ آف ڈائریکٹرزکی سفارش کے بعد بنایا گیا تھا جبکہ ان کی تعیناتی کی سمری ایڈیشنل سیکریٹری صبا محسن نے بھیجی تھی جس کے بعد سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ نے منظوری کیلیے وزیراعظم کو بھجوائی۔
چیف جسٹس نے کہاکہ عطا الحق قاسمی کو کس خصوصیت پر چیئرمین بنانے کی سفارش کی گئی تو سیکریٹری اطلاعات نے جواب دیا کہ وہ مشہور رائٹر اور ڈرامہ نگار ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا مجھے تو یہ سارا ہی ڈرامہ لگتا ہے، یہ سارا کام فواد حسن فواد نے کیا ہوگا اسے بھی بلالیتے ہیں، سمری پر دستخط نوازشریف نے کیے انھیں بھی بلا سکتے ہیں، ایک کروڑ روپیہ ماہانہ بنتا ہے جو عطا الحق قاسمی نے وصول کیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ صبا محسن اپنے ہمراہ وہ سمری بھی لے کر آئیں جس میں عطا الحق قاسمی کی تعیناتی کی سفارش کی گئی تھی جس کے بعد کیس کی سماعت12فروری تک ملتوی کردی گئی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عطاالحق قاسمی کو2 سال میں27کروڑ روپے دیے گئے، پھر کہتے ہیں عدلیہ متحرک نہ ہو، کیا اس طرح کا پیکیج عطاء الحق قاسمی کو دیا جاسکتا تھا، مجھے تو یہ سارا قصہ ہی ڈرامہ لگ رہاہے، کیوں نہ سابق وزیراعظم کو سمری منظور کرنے پر نوٹس جاری کردیں، یہ غریبوں کے ٹیکس کا پیسہ تھا، رقم دینے اور لینے والے رقم کی واپسی کے ذمے دار ہوںگے، ہم عطا الحق قاسمی سے وصولی کریںگے۔