خبرنامہ پاکستان

ڈی جی سول ایوی ایشن کا ہتک آمیز رویہ

ڈی جی سول ایوی ایشن کا ہتک آمیز رویہ

کراچی:(ملت آن لائن) ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن ایئر مارشل رٹائرڈ عاصم سلیمان کے ملازمین کے ساتھ رویے کو سینئر افسران وملازمین نے ہتک آمیز قرار دیتے ہوئے سخت موقف اختیار کیا ہے تاہم اس سلسلے میں مشیر ہوا بازی کو خط تحریر کیا گیا ہے جس میں ادارے کے سربراہ کی دماغی حالت کو مشکوک قرا ر دیا گیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ان کا طبی معائنہ کرایا جائے اور ان کی جگہ کسی سنجیدہ اور اہل آفیسر کا تقرر کیا جائے۔سول ایوی ایشن کے درجنوں افسران وملازمین کے دستخط سے لکھے جانے والے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن ایئر مارشل رٹائرڈ عاصم سلیمان کی جانب سے ادارے میں عرصہ دراز سے جاری نارواسلوک کا نوٹس لیا جائے کیونکہ ان کے رویے کی وجہ سے ملازمین شدید اعصابی تناؤ کا شکار ہیں۔ مشیر ہوابازی کو لکھے گئے خط میں درخواست کی گئی ہے کہ ڈی جی سول ایوی ایشن کی دماغی حالت ٹھیک نہیں، اُن کا طبی معائنہ کروایا جائے۔ڈی جی سی اے اے کے خلاف لکھے گئے خط میں سینئر ڈائریکٹرزکے نام بھی شامل ہیں۔ خط کے متن کے مطابق یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ سول ایوی ایشن کے موجودہ ڈی جی عاصم سلیمان کو عہدے سے ہٹایا جائے۔ یہ بھی تحریرہے کہ ڈی جی سی اے اے کے رویے کے خلاف افسران میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے ،وہ افسران وملازمین کی تذلیل کررہے ہیں جس کے باعث بیشتر افسران امراض قلب وذہنی مریض بن چکے ہیں۔شکایتی خط کے متن میں مزید کہا گیا کہ موجودہ ڈی جی سی اے اے کے بارے میںاپنے تحفظات باضابطہ مراسلے کی شکل میں آپ کو ارسال کررہے ہیں ،تما م سینئر منیجمنٹ سول ایو ی ایشن کو یہ مسائل درپیش ہیں ۔ ڈی جی سول ایوی ایشن کارویہ انتہائی نامناسب اور ہتک آمیز ہے جس کاجنگی بنیادوں پر فی الفور نوٹس نہ لیا گیا تو ادارے کی کارکردگی اور انتظام کو متاثر کرنے کا سبب بنے گی۔ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی ایک پبلک سیکٹر ادارہ ہے جو ریگولیٹر کے ساتھ ساتھ خدمات کنندہ کے طورپر بھی اپنا مضبوط کردار اداکررہا ہے۔ وفاقی حکومت نے ایئر مارشل رٹائرڈ عاصم سلیمان کو 27 نومبر2015 کو ڈی جی مقررکیا۔ اپنی تقرری کے بعد سے ہی ڈی جی سی اے اے تمام افسران و اہلکاروں کے خلاف انتہائی اقدامات اٹھارہے ہیں اور خاص طورپر توہین آمیز اور گندی زبان استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ وہ خود بہتر جانتے ہیں۔ جس طرح کی زبان وہ استعمال کرتے ہیں اس کی توقع کسی ادارے کے سربراہ سے ہرگز نہیں کی جاسکتی ،سول ایوی ایشن کی پوری تاریخ میں ایسا طرز عمل نہیں دیکھا گیا ۔ خاص طورپر پاکستان ایئر فورس جیسے معتبر ادارے سے تعلق رکھنے والے کسی فرد سے ایسے طرز عمل کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
ڈی جی سی اے اے کے اس طرح کے اقدامات اور برتاؤ کی وجہ سے دفتری ماحول اس حد تک خراب ہوچکا ہے کہ اس سے زیادہ خراب ماحول کی توقع نہیں کی جاسکتی ،سینئر افسران کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز رویہ ان کے ماتحت افسران و عملے کے سامنے کیا جاتاہے جس کی وجہ سے افسران میں بددلی اور مایوسی پائی جاتی ہے اور اداے کی بہتری کے لیے افسران میں پایا جانے والا جوش وجذبہ متاثر ہورہاہے۔ ڈی جی سی اے اے کے اس رویے کی وجہ سے سول ایوی ایشن اتھارٹی میں ٹیم ورک کا فقدان پیداہوگیا ہے۔ڈی جی سی اے اے ادارے کی اطمینان بخش کارکردگی اورجاری منصوبوں کاکریڈٹ بھی خالصتاً اپنی ذات کو دیتے ہیں جس کی وجہ سے ادارے میں حوصلہ افزائی کا رجحان دم توڑ رہا ہے۔ ہتک آمیز رویے اور برتاؤ کی وجہ سے افسران کی صحت بھی متاثر ہورہی ہے اور ان کے اہل خانہ بھی اس صورتحال کی وجہ سے متاثر ہیں۔ متعدد افسران اس صورتحال سے نجات حاصل کرنے کے لیے قبل از وقت رٹائرمنٹ پر غور کررہے ہیں جب کہ اس پوری صورتحال کو آسان الفاظ میں غیر انسانی کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔ملازمین وافسران کا یہ سوال ہے کہ لیڈر شب کی خصوصیات سے مکمل طور پر عاری اور افسران کے لیے مثال نہ بننے والی خامیوں کے حامل شخص کوکس طرح ہوابازی کے اہم ترین ادارے کے سربراہ کے عہدے پر فائز رکھا جاسکتاہے؟ ڈی جی کی بدسلوکی کانشانہ ملازمین کے علاوہ کنسلٹنٹ ،ڈیزائنر ،کانٹریکٹر اور دیگر اسٹیک ہولڈرز بھی بن رہے ہیں ،جس کی وجہ سے ادارے کے امور بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ ادارے میں دوسرے بڑے عہدے پر فائز ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایئر وائس مارشل اوسید الرحمن عثمانی جو ڈیپوٹیشن پر تعینات ہیں، ان سے ہمیں بے حد توقعات وابستہ تھیں کہ وہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے افسران اور ملازمین کو اس ہتک آمیز رویے سے تحفظ فراہم کرینگے لیکن وہ اپنا کردار اداکرنے میں نہ صرف ناکام ہیں بلکہ افسران و ملازمین کو اپنے سخت کنٹرول اور زیر اثر رکھنے کے لیے ڈی جی عاصم سلیمان کو غلط مشورے بھی دے رہے ہیں۔مذکورہ بالا حقائق کی بنیاد پر اس خط کے لکھے جانے کی وجوہ واضح ہوتی ہیں کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز دونوں افسران کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے سی اے اے کو تاریخ کے بدترین دور کا سامنا ہے اور یہ دونوں شخصیات نہ صرف ملازمین کے جذبات بلکہ ادارے سے بھی کھیل رہے ہیں۔ اگر یہ رویہ مزید برقرار رہا تو افسران نے فیصلہ کیا ہے کہ راست اقدام اٹھائیں گے۔ خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ہماری درخواست پر فی الفور توجہ نہ دی گئی تو صورتحال قابو سے باہر اور کوئی غیر موزوں سمت اختیار کرجائے گی۔