خبرنامہ پاکستان

کرپٹ سسٹم کےخاتمےتک چین سےنہیں بیٹھیں گے: قریشی

ورجینیا: (اے پی پی) تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ عمران خان کے بارے میں امریکی تخفظات کو دور کرنے کے لیئے انہوں نے امریکی ایوان نمائندگان اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اعلٰی عہدیداران سے ملاقاتیں کیں ہیں ، ان ملاقاتوں میں حوصلہ افزاء پیش رفت ہوئی ہے اور آنے والے دنوں میں ہم کرپٹ نواز حکومت کو مزید ٹف ٹائم دینگے۔ ان کا کہنا تھا جب تک کرپٹ سسٹم کا خاتمہ نہیں ہوتا ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ورجینیا کے ایک مقامی ریسٹورنٹ میں پارٹی ورکروں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی اعلٰی حکام کو بتایا ہے کہ تحریک انصاف جمہوریت پر یقین رکھتی ہے اور اس پارٹی کے چیئرمین عمران خان جمہوری سوچ کے حامل ہیں ۔ عمران خان کا سیاست میں آنا پاکستان میں موروثیت کا خاتمہ کرنا اور حقیقی جمہوریت لانا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے عہدیداران نے بھی ان سے تحریک انصاف کے منشور اور ایجنڈے کے بارے میں سوالات کیے جن کا بڑے مدلل اور ٹھوس ثبوت کے ساتھ جواب دیا ۔ اپنے دورہ امریکہ کے دوران انہوں نے کئی تھنک ٹینک اداروں سے بھی ملاقاتیں کیں اور ان کو پاکستان کے جغرافیائی محل وقوع کے حوالے سے بتایا کہ آپ جو مرضی کر لیں لیکن آپ اُس خطے میں پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر کچھ نہیں کر سکتے ۔ ان کا کہنا تھا پاکستان کی افواج دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیئے جو قربانیاں دے رہی ہے اس سے اُس خطے میں امن آئیگا اور دہشت گردی سے پاک خوشحال نیا پاکستان بنے گا ۔ شاہ محمود قریشی نے ” دنیا نیوز” نارتھ امریکہ کے نمائندے ندیم منظور سلہری سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں اور چوہدری سرور پارٹی سے اختلافات کی وجہ سے باہر نہیں ہیں ۔ میں 5 اگست کو واپس جا کر باقاعدہ پارٹی سرگرمیوں میں حصہ لوں گا ۔ انہوں نے کہا ہمارا پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ کوئی الائنس نہیں ہے وہ اپنی اور ہم اپنی جدوجہد کر رہے ہیں لیکن دونوں جانب سے پارٹی کے عہدیداران ایک دوسرے کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے ہیں جو کہ معمول کا حصہ ہے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پانامہ کیس کے حوالے سے حکومت بااختیار کمیشن نہیں چاہتی وہ 56 ایکٹ کے تحت کمیشن بنانا چاہتی ہے ۔ چنانچہ اب اپوزیشن کی نو جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم مل بیٹھ کر ایک بل ڈرافٹ کرینگے اپنے ٹی آر اوز بنائیں گے جن پر اپوزیشن جماعتوں کا اتفاق ہو گیا ہے اور ہم اپنا بل بنا کر سینٹ اور قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ قومی اسمبلی میں اگر حکومت اس کو پاس نہ بھی کرے تو سینٹ میں پاس ہونے کے امکانات موجود ہیں ۔