خبرنامہ پاکستان

کسی بھی کمیٹی کےسامنےپیش نہیں ہوگا، راؤ انوار

کسی بھی کمیٹی کےسامنےپیش نہیں ہوگا،

کسی بھی کمیٹی کےسامنےپیش نہیں ہوگا،راؤ انوار

کراچی :(ملت آن لائن) سابق ایس ایس پی ملیر راؤانوار کا کہنا ہے کہ میں آج کسی بھی کمیٹی کےسامنےپیش نہیں ہوگا ،جہاں انصاف کی امیدہی نہیں وہاں جاکر کیا کروں، میرےخلاف یکطرفہ کارروائی کی جارہی ہے۔ سابق ایس ایس پی راؤ انوار کا کہنا ہے کہ میں آج کسی بھی کمیٹی کےسامنےپیش نہیں ہوگا ، جہاں انصاف کی امیدہی نہیں وہاں جاکر کیا کروں ، میرے خلاف میڈیا پر بھر پور پروپیگنڈا کیاجارہا ہے۔ راؤانوار کا کہنا تھا کہ کچھ روزپہلےشارع فیصل مقابلےپر آئی جی نےانعام کا اعلان کیاتھا، بعد میں شارع فیصل مقابلہ غلط ثابت ہوا تو کیا آئی جی ملوث ہیں؟ میرےخلاف یکطرفہ کارروائی کی جارہی ہے۔ خیال رہے کہ آئی جی آفس نے آج صبح اور ایس پی انویسٹی گیشن نے بھی دوپہر ایک بجے طلب کر رکھا ہے۔ گذشتہ روز جعلی مقابلے میں نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے الزام میں راؤانوار نے ڈی آئی جی ایسٹ کے دفتر میں طلبی کا سمن ہوا میں اڑادیا اور پیشی سے صاف انکار کرتے ہوئے اپنے تمام نمبرز بند کردیے اور کہا تھا کہ دیگر کمیٹیوں میں پیشی کا بھی فی الحال فیصلہ نہیں کیا۔
نقیب اللہ کیس: راؤ انوار کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی تیاریاں، ایس ایس پی نے فون بند کردیے
ڈی آئی جی ایسٹ سلطان خواجہ کا کہنا تھا کہ ہم سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کررہے ہیں مگر راؤ انوار یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ہم انہیں سننا نہیں چاہتے ، اُن کے موبائل مسلسل بند جارہے ہیں ، نقیب اللہ کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ سامنے نہیں آیا، ان تمام چیزوں کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ راؤ انوار پر ہونے والا حالیہ خود کش حملہ مشکوک تھا۔ راؤ انوار نے ڈی آئی جی ایسٹ کے دفتر پیش ہونے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی دیگر کمیٹیوں کے سامنے پیش ہونے کا فیصلہ نہیں کیا۔ واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں خطرناک ملزمان کی گرفتاری کے لیے شاہ لطیف ٹاؤن میں چھاپے کے لیے جانے والی پولیس پارٹی پر دہشت گردوں نے فائرنگ کردی تھی جس پر پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے نقیب اللہ کی ہلاکت کا ازخود نوٹس لیا تھا اور آئی جی سندھ سے سات روز میں واقعے کی رپورٹ طلب کرلی تھی۔ نقیب اللہ کے حوالے سے ایس ایس پی ملیر راؤ انور نے دعویٰ کیا تھا کہ دہشت گردی کی درجنوں وارداتوں میں ملوث نقیب اللہ کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تھا اور کراچی میں نیٹ ورک چلا رہا تھا جبکہ 2004 سے 2009 تک بیت اللہ محسود کا گن مین رہا جبکہ دہشتگری کی کئی واردتوں سمیت ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل توڑنےمیں بھی ملوث تھا۔ نوجوان کی مبینہ ہلاکت کو سوشل میڈیا پر شور اٹھا اور مظاہرے شروع ہوئے تھے، بلاول بھٹو نے وزیرداخلہ سندھ کو واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا، جس کے بعد ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں تفتیشی ٹیم نے ایس ایس پی ملیر سے انکوائری کی۔ اعلیٰ سطح پر بنائی جانے والی تفتیشی ٹیم نے راؤ انوار کو عہدے سے برطرف کرنے اور نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کی سفارش کی جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے انہیں گزشتہ روز عہدے سے برطرف کردیا گیا۔