خبرنامہ پاکستان

گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد، والدین نے راضی نامہ کرلیا

گھریلو ملازمہ:(ملت+اے پی پی) طیبہ پر ایڈیشنل سیشن جج اور فیملی کے تشدد کے معاملے کا ڈراپ سین ہو گیا۔ والدنے مقدمے کو بے بنیاد قرار دے کر راضی نامہ کر لیا،ایڈیشنل سیشن جج اور ان کی اہلیہ کو فی سبیل اللہ معاف بھی کر دیا۔ کمسن بچی کے جلے ہاتھ اورپھٹا سرکسی کونظرنہ آیا،عدالت نے جج کی اہلیہ کی 30ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظورکرلی۔ کمسن گھریلو ملازمہ پر تشدد کیس میں دس سالہ طیبہ کو انصاف ملا یا نہیں۔ مگر ایڈیشنل سیشن جج راجاخرم علی خان اور اہلیہ کو عین قانونی تقاضوں کے مطابق انصاف مل گیا۔ دو سال سے ملنےکیلئے نہ آنے والے والدین نے راضی نامہ کر لیا۔ بچی کے والدین کوگزشتہ روز مجسٹریٹ کے پاس شناخت کے لیے آنا تھا، مگر نہ آئے، طیبہ مجسٹریٹ کے پاس انتظار کرتے واپس بھجوا دی گئی۔ جبکہ والدین راضی نامہ میں مصروف رہے ۔ یہ دس سالہ گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کا وہی کیس ہے جس میں سوشل میڈیا پر بچی کی تشدد بھری تصاویر عام ہوئیں اور ہیومن رائٹس کمیشن کے حکم پر پولیس نے جج صاحب کے گھر سے بچی کو برآمد کرایا تھا۔ بچی نے مجسٹریٹ کو بیان میں بتایا تھا کہ اس پر تشدد ہوتا ، کھانا نہیں دیا جاتا تھا، ٹینکی کےساتھ اندھیرے کمرے میں سلادیاجاتا تھا۔بچی نے بتایا تھا کہ جھاڑو گم ہونے پر اسے مار پڑی تھی، مالکن نے ہاتھ جلتے چولہے پر رکھے تھے اور چائے بنانے والی ڈوئی سیدھے منہ پر دےماری تھی، جس کے نشانات ننھی طیبہ کے جسم پر واضح تھے۔ بچی نے بیان میں کہا تھا کہ دو سال سے جج راجا خرم علی خان کے گھر کام کرتی ہے مگر اس دوران والدین ملنے نہیں آئے۔ صرف باہر ہی باہر پیسے لے لیتے تھے۔ انہی والدین نے صلح نامے میں بیٹی پر تشدد کے مقدمے کو بے بنیادقرار دیا اور فی سبیل اللہ ایڈیشنل سیشن جج اور ان کی اہلیہ کو معاف کر دیا۔ ساتھ ہی عدالت نے جج کی اہلیہ ماہین ظفرکی 30 ہزار کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کر لی۔