لاہور:(ملت آن لائن) کرتار پور راہداری کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کے لیے بھارتی وفد پاکستان پہنچ گیا۔
سابق بھارتی کرکٹر اور سیاست دان نوجوت سنگھ سدھو کی قیادت میں بھارتی وفد واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان پہنچا جہاں پنجاب رینجرز کے حکام نے ان کا استقبال کیا۔
اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے نوجوت سنگھ سدھو نے کہا کہ عمران خان نے تین ماہ پہلے جو بیج بویا آج وہ پودا بن چکا ہے، اس سے زیادہ خوشی نہ مجھے ہوسکتی تھی اور نہ 12 کروڑ سکھ برادری کو، پاکستان کے وزیراعظم اور تمام افسران کا شکریہ ادا کرتاہوں۔
انہوں نے کہا کہ کرتارپور راہداری امن کا راستہ ثابت ہوگا، امن کی راہداری کھلنے سے 60 سال کے بجائے 6 ماہ میں خوشحالی آسکتی ہے، یہ راہداری دونوں ممالک کی سرحدیں کھلنے کا باعث ہوگی۔
نوجوت سنگھ سدھو کا کہنا تھا کہ مذہب کو سیاست کی نگاہ سے مت دیکھیں، خود پر تنقید کرنے والوں سے میرا انتقام یہی ہےکہ جاؤ معاف کیا۔
مہمان سدھو نے کہا کہ پاکستان اور بھارت میں بہت سے نامور فنکار اور کھلاڑی ہیں جنہیں سب پیار کرتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ میچ ہونے چاہیئیں۔
نوجوت سنگھ سدھو نے اس موقع پر ایک شعر بھی پڑھا، گورونانک کے بول ہمیشہ یاد رکھیں گے، شیخ فرید کی نصیحت ہمیشہ یاد رکھیں گے، مریدوں کو جو مرشد کی طرف لے جائے، ہم اس امید کی کل بنیاد رکھیں گے۔
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان کل نارووال کے قریب کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھیں گے جب کہ تقریب میں بھارتی وفد سمیت پاکستان میں موجود سکھ یاتری بھی تقریب میں شرکت کریں گے۔
پاکستان کی تجویز پر نریندرمودی حکومت نے کرتار پور سرحد تک اپنی حدود میں راہداری بنانے کی منظوری دی، اس سے قبل پاکستان نے بھارت کو پیشکش کی تھی کہ سکھ یاتریوں کو بغیر کسی دشواری کرتارپور آنے کے لیے پاکستان راضی ہے، بھارت بھی اس کی اجازت دے۔
کرتارپور کی اہمیت و پس منظر
پاکستان کے ضلع نارووال میں واقع کرتار پور بھارتی سرحد سے متصل علاقہ ہے جہاں سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک دیو جی نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے اور یہیں گردوارے میں ان کی قبر بھی ہے اور یہ علاقہ سکھوں کے نزدیک مقدس ہے۔
سکھ یاتریوں کو کرتارپور تک پہنچنے کے لیے پہلے لاہور اور پھر تقریباً 130 کلو میٹر کا سفر طے کر کے نارووال پہنچنا پڑتا تھا جب کہ بھارتی حدود سے کرتارپور 3 سے 4 کلو میٹر دوری پر ہے۔
ہندوستان کی تقسیم کے وقت گردوارہ دربار صاحب پاکستان کے حصے میں آیا، دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث طویل عرصے تک یہ گردوارہ بند رہا۔
بھارتی سکیورٹی فورس نے سرحد پر ایک ‘درشن استھل’ قائم کیا جہاں سے سکھ دوربین کی مدد سے دربار صاحب کا دیدار کرتے ہوئے اپنی عبادت کیا کرتے تھے اور پہلی بار 1998 میں دونوں حکومتوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت ہر سال سکھ یاتریوں کو کرتارپور کا ویزہ ملنا شروع ہوا۔