اسلام آباد: (ملت آن لائن) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ملک بھر میں کچی آبادیوں کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے قانونی مسودے پر چاروں صوبوں سے جواب طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک آبادی کی سوسائٹی کو ماڈل بنا کر دیگر آبادیوں کی تعمیر ہوگی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ملک بھر کی کچی آبادیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کچی آبادیوں کی حالت کو بہتر کرنا انتظامیہ کا کام ہے، سہولیات فراہم نہیں کر سکتے تو ان کا متبادل نظام کریں اور اگر انتظامیہ یہ کام نہیں کرتی تو پھر عدالت معاملے کو دیکھے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد اور چاروں صوبے اس معاملے میں شراکت دار ہیں، ہمیں اس حوالے سے کوئی قانون یا پالیسی موجود ہے تو بتایا جائے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم نے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کی پالیسی بنائی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معلوم نہیں کہ یہ 50 لاکھ گھرکب تک تعمیر ہوں گے لیکن فوری طور پر کچی آبادیوں میں رہنے والوں کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کیا آپ نے اسلام آباد کے حوالے سے کوئی معلومات اکٹھی کی ہیں، کچی آبادیوں میں تعفن پھیل رہا ہے، کچی آبادیوں کے لیے سی ڈی اے نے جگہ مخصوص کر رکھی ہے، ہمیں بتائیں انہیں متبادل جگہ فراہم کرنے میں کتنا وقت لگے گا، ابھی تو پی سی ون بنے گا فنڈ کا مسئلہ ہوگا اور بھی کئی مسائل ہوں گے لیکن فوری طور پر ان لوگوں کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم گھر میں مرغیوں یا کبوتروں کا پنجرہ بھی بنائیں تو اس کے لیے بھی منصوبہ بندی کرتے ہیں، مردم شماری بھی کی ہوگی لیکن اسلام آباد کے لیے بھی کچھ کیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایک کچی آبادی کی سوسائٹی کو ماڈل بنائیں گے اور پھر تمام سوسائٹیوں کو اس ماڈل کے مطابق بنایا جائے گا، ہمیں یاد ہے کہ 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کچی آبادی سے متعلق قانون بنا تھا۔
مذکورہ قانون کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دیکھیں گے کہ سندھ حکومت نے بھٹو کے قانون پر کتنا عمل کیا، وزیر اعلیٰ اور گورنر کے ساتھ سندھ کی کچی آبادی کا دورہ کروں گا۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بتا دیں کہ کچی آبادی میں رہنے والے کیا کیڑے مکوڑے ہیں، لکھ کر دے دیں کہ ان کے بنیادی حقوق نہیں ہیں، وزیر اعظم کو جاکر بتادیں کہ 50 لاکھ مکان تو بنانے میں ہمیں کوئی شبہ نہیں لیکن جب تک وہ نہیں بنتے تب تک کچی آبادیوں کا کچھ کریں، لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
عدالتی معاون بلال منٹو نے کہا کہ پوش علاقوں میں دیواروں پر لکھا ہے کہ یہاں ملازمین کا داخلہ منع ہے جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ڈی ایچ اے کے اندر جو کچی آبادی آجائے اس کو ہر سہولت دی جاتی ہے اور ان کے ارد گرد دیوار بنائی جاتی ہے اور اندرمارکیٹ تک بنائی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خیبر پختونخواہ (کے پی) میں بھی ایسی آبادیوں سے متعلق کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو کہا کہ اٹارنی جنرل سے کہیں کہ وزیر اعظم سے معلوم کریں کہ انہیں کب فراغت ملے گی کیونکہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اس کو دیکھا جائے، ہم وزیر اعظم کو حکم نہیں دے رہے لیکن وہ اس مسئلے کو دیکھیں۔
سپریم کورٹ نے وفاق سمیت چاروں صوبوں سے قانونی مسودے پر جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 4 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔