حیرت کس بات کی، یہ کسی محل کا ڈرائیو وے نہیں بلکہ ایک ٹیکسٹائل مل کا فرنٹ ہے یا یوں کہہ لیجیئے کہ داخلے کا اندرونی منظر، مگر لگتا یہ ہے کہ آپ کی نظر کسی وسیع پارک کی انٹرنس پر مرکوز ہے
مگر صاحب ، آپ کے سب اندازے غلط ہیں ، یہ تو شیخو پورہ میںنشاط ٹیکسٹائل ملز کا داخلی دروازہ ہے اور درختوں سے لدی پھندی ڈرائیو وے پر گاڑی دوڑاتے ہوئے آپ فیکٹری میں جا داخل ہوتے ہیں.
یہ کارنامہ انجام دینے والے تھے پروفیسر سید محفوظ قطب جنہین میاں منشا نے یہ فرہضہ سونپا کہ وہ ان کے لئے ایک جدید تریں ٹیکسٹائل مل لگائیں ، یہ مل تو لگ گئی مگر پروفیسر محفوظ قطب نے اسے سرسبز درختوں سے پر بہار بھی بنا دیاا ور ایک ایسی خوشگوار لک دی کہ دیکھنے والا حیرت کدے میں ڈوب جاتا
پروفیسر محفوظ قطب پیشے کے اعتبار سے ٹیکسٹائل انجینیئرنگ کے استاد ہیں مگر ان کا ذہن تخلیقی صلاحیتوں سے ما لا مال ہےا ور وہ منظر کو خوشنما بنانے کے فن کے بھی ماہر شمار کئے جاتے ہیں
عام طور پر کسی فیکٹری کے قریب پہنچیں تو بدبو کے بھبوبکے آپ کا استقبال کرتے ہیں، بیرونی دیوار کے ساتھ کچرے کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں اور کتے بلیاں اس میںمنہ مار رہے ہوتے ہیں، مزید اندر جائیں تو کیمکلز کی بد بو آپ کےدماغ کو مائوف کر دیتی ہے مگر سید محفوظ قطب بے اس مل کو دیکھنے میں بھی ایک شاہکار کے طور پر تخلیق کیا
.
اور اب فیکٹری کے اندر بھی جھانک کر دیکھ لیجئے، ایک ترتیب سے مشینیں نصب ہیں ، کوئی شور و ہنگامہ نہیں، کوئی بھاگ دوڑ نظر نہیں آتی ا ور ہر کام سلیقے سے انجام پا رہا ہے.
پروفیسر محفوظ کتب بیتے ہوئے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے کوشش کی یہ مل دنیا کی جدید تریں ٹیکسٹائل مل کا ایک کامل نمونہ ہو اور میاںمنشا کی طرف سے انہیں اجازت تھی کہ وہ جہاں سے بھی کوئی اچھی ا ور جدید مشین مل سکتی ہے، خریدنے میں آزاد ہیں، اس قدر اعتماد ملا تو پروفیسر محفوظ قطب نے واقعی سے ایک شاہکار کھڑا کر دیا، جسے دیکھنے کےلئے لوگ دور دور سے آتے تھے مگر آپ پھر حیران ہوب گے کہ خود میاںمنشا صرف چند ایک بارا س فیکٹری کو دیکھنے کے لئے آئے ، انہون نے ہر فیصلہ پروفیسر محفوظ قطب پر چھوڑ رکھا تھا اور پروفیسر صاحب نے بھی میاں صاحب کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہ پہنچائی
اور آخر مین ایک گروپ فوٹو میاںمنشا کے ساتھ ، پورفیسر صاحب بھی ساتھ کھڑے نظرا آتے ہیں
زمانے کی دست برد کے ہاتھوں تصویریں اپنی چمک کھو چکی ہیں مگر جو مل پروفیسر محفوظ قطب نے بصب کی. بلکہ تخلیق کی، اس کی آب و تاب آج بھی آ نکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے..