سر سکندر اور مسلم لیگ
23 دسمبر1938 کو پٹنا میں مسلم لیگ سیشن میں شرکت کے لیے روانگی سے پہلے ملک برکت علی نے مندرجہ ذیل بیان دیا۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ میں ایک مسلم لیگی ہوں اور میری تمام تر اور بلا شرکت غیرے اطاعت صرف اور صرف مسلم لیگ کے ساتھ ہے ۔ میں نے اس وقت بھی مسلم لیگ کے جھنڈے کو تھاما اور بلند رکھا جب یونینسٹ پارٹی کے لیڈ،ر موجودہ وزیراعظم، نے اپنی پارٹی کی تمام طاقت اور اثرورسوخ مجھے الیکشن میں شکست دینے پر استعمال کیئے اور وہ بھی صرف اس لیے کہ میں مسٹر جناح اور مسلم لیگ کے ٹکٹ پر اور یونینسٹ پارٹی کے ٹکٹ اور اس کی اطاعت گزاری سے انکار کیاتھا۔ میں الیکشن کے بعداس وقت بھی مسلم لیگ کے ساتھ مخلص رہا جب موجودہ وزیر اعظم اپنی کابینہ بنانے میں مصروف تھے اور وزارتوں اور پارلیمانی سیکریٹری کے تحفے سب میں بانٹ رہے تھے؛ بلکہ میں تو اس کے ساتھ بھی مخلص رہا جو مسلم لیگی ہونے کا ڈھونگ کر رہا تھا اور لیگ کی ٹکٹ پر کامیاب ہوا تھاَ یہ الکیشن جیتنا چاہتا تھا۔ بعد میں جب سر سکندر نے صوبے میں مسلم لیگ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قومیت پرستی کی لہر سے خوف زدہ ہوکر لکھنؤ کا رخ کیا اور خود کو ہمارے لیڈر مسٹر جناح کے قدموں میں پھینک دیا میں نے ایک مسلم لیگی ہونے کی حیثیت سے ان کو مکمل اورپر خلوص تعاون کی یقین دہانی کروائی ۔ لیکن واپس آنے کے بعد جب انہوں نے اپنا دوہرا پن دکھانا شروع کیا اور بعد میں مکمل طور پر اپنی تمام تر کوششیںیہ تاثر دینے میں لگا دیں کہ مسلم لیگ اس کی سابقہ جماعت یونینسٹ پارٹی کا ایک کمزور حصہ ہے۔اور یہ سب کرنے کا مقصد صرف یہ تھالیگ کی مسلم طبقے کی نمائندہ اور متحرک جماعت ہونے کی حیثیت کو ختم کیا جا سکے۔ ان سب باتوں کے بعد میں نے سر سکندر کے غصے اور گالیوں کے باوجود اپنا احتجاج ظاہر کر وایا اور اپنی آواز بلند کی۔
میں اپنے مسلم حامیوں کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ مسلم لیگ کے مقصد کے ساتھ میرا تعلق اور لگن اتنی ہی ہے جتنی پہلے تھی اور دنیا کی کوئی طاقت مسلم لیگ کے لیئے میری امنگوں اور مقاصد کے عقائد کو کم نہیں کر سکتی جو کہ مجھ میں عوامی سر گرمیوں کے لیے ہمیشہ سے سرگرم رہی ہیں ۔ اگر سر سکندر عوامی سطح پر مسلم لیگ پر اپنی حمایت کا اعلان کرتے ہیں اور غیر مشروط طور پر اس کی قیادت کو ہر لحاظ سے یونینسٹ پارٹی کی قیادت سے اوپر تسلیم کر تے ہیں( در حقیقت ان کے غیر مشروط حمایت کے بعد یونینسٹ پارٹی ایک علیحدہ سیاسی جماعت کی حیثیت سے اپنی انفرادیت کھو دے گی) اور پوری جانثاری اور ایمانداری کے ساتھ مسلم لیگ کے نیٹ ورک کو جمہوری آیئن کی روشنی میں پورے صوبے میں پھیلانے کے لیے کام کریں تو میں مسلم لیگ کے ادنی سے فوجی کی حیثیت سے ہمیشہ ان کے ساتھ کام کرنے کے کیے تیار ہوں ۔
لیکن سب سے پہلی اور اہم شرط یہ ہے کہ یونینسٹ پارٹی کو فورا تحلیل کیا جائے جیسا کہ مسلم لیگ کے لیڈر کا اصرار ہے کہ وہ اس معاملے میں خود مختارہوں گے کہ مسلم لیگ کی قانون ساز مجلس کی اجازت کے بعد دوسری جماعتوں کے ساتھ اتحاد کریں جن کے مقاصد اور خیالات مسلم لیگ کے مقاصد سے مطابقت رکھتے ہوں پھر یونینسٹ پارٹی پر اس الزام کی نہ کوئی اہمیت نہیں ہو گی اور یہ خود بخود ختم ہو جائے گا کہ وہ مسلم لیگ کے ساتھ مخلص نہیں ہے اور پوشیدہ طور پر مسلم لیگ کو مستقل نقصان پہچانے کے مقصد کے لیے کام کر رہیں ہیں۔