پنجا ب میں پروفیسر رنگا کے داخلے پر پابندی
4فر وری1938کو پنجاب گورنمنٹ نے پروفیسر رنگاپر پنجاب میں داخلے پر پابندی لگائی جو لاہور میں بینک اور انشورنس ایمپلائز کانفرنس کی صدارت کے لیے آ رہے تھے اس سلسلے میں 24 فروری کو سردار ہری سنگھ کی جانب سے اسمبلی میں تحریک التوا پیش کی گئی ۔ اس قرارداد پر بات کرتے ہوئے ملک برکت علی نے کہا:
سر میں نے عزت مآب وزیراعظم کی تقریر بہت غور سے سنی ہے اور میں یہ کہوں گا کہ میرے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ میں اس تحریک التوا کی مخالفت کروں ۔ پروفیسر رنگا سنٹر ل اسمبلی /قومی اسمبلی کے ایک ممتاز رکن ہیں اور انڈیا کے بہت ما یہ ناز لیڈر ہیں اور یہ بہت افسوس ناک بات ہے کہ صوبے میں ان کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے کیونکہ اگر وہ صوبے میں داخل ہوئے تو شاید دریائے راوی میں آگ لگ جائے گی ۔یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ کسی عوامی نمائندے کی اس صوبے میں داخلے پرپابندی لگی ہو۔
20 یا 23 سال پہلے کی بات ہے ،سر مائیکل اوڈائیر اس صوبے میں تھے، انہوں نے بھی اسی طرح اس وقت کی بعض ممتا ز شخصیات پر صوبے میں داخلے پر پابندی لگائی تھی جس میں مرحوم بی۔سی پال اور مرحوم بال گنگا دھر تلک جیسی شخصیات شامل ہیں ۔جس بنا پر ان ممتاز لیڈروں پر پابندی لگائی گئی، ہماری موجودہ گورنمنٹ کی پابندی کی وجہ بھی ماضی سے مطابقت رکھتی ہے ؛ یعنی صوبے میں امن و امان کی صورت حال خراب ہو گی۔ سر ،صوبے کی موجودہ گورنمنٹ گذشتہ حکومتوں سے زیادہ جمہوری ہے اور صوبے میں امن و امان کی صورت حال سر مائیکل اوڈائیر کے زمانے سے زیادہ بہتر ہے ۔ امن و اما ن خراب ہونے کے واقعات ان دونوں میں تو ہو سکتے تھے کیونکہ تب کی بیوروکریسی عوام کی آواز سننے کی قائل نہیں تھی ۔آج کی گورنمنٹ ایک منتخب گورنمنٹ ہے جو منتخب نمائندوں پر مشتمل ہے اور جو اس اسمبلی کے سامنے اور خاص طور پر اس عوام کے سامنے جوابدہ ہے جو در حقیقت اس اسمبلی کے اصل مالک ہیں ۔ عزت مآب وزیراعظم نے صوبے کے امن و امان پر بہت زیادہ زور دیا ۔ ہم وزیراعظم سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پرو فیسر رنگا جیسے قابل انسان کی موجودگی سے صوبے کا امن کس طرح خطرے میں پڑ سکتا ہے جبکہ وزیر اعظم خود یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ پروفیسر رنگا ایک غیر سیاسی میٹنگ میں شرکت کرنے آرہے ہیں ۔ وزیر اعظم نے ہمیں بتایا ہے کہ انہوں نے پروفیسر رنگا کو صوبے میں آمد پر خوش آمدید کہا ہے لیکن اس شرط پر کہ وہ صوبے میں آکر کوئی سیاسی سرگرمی نہیں کریں گے ۔۔۔۔اور ہمارے وزیراعظم شاید یہ سوچتے ہیں کہ اس طرح کا جواب ان کے اپنے ضمیر کو مطمین کرے گا۔ میرے خیال میں پروفیسر رنگا نے ہندوستانی لیڈروں کی روایات کو برقرار رکھا جب انہوں نے اس شرط پر صوبے میں آنے سے انکا ر کر دیا ۔میں اب اس طرح کی کچھ عرصہ پہلے کی ایک اور مثال دیتا ہوں ۔کچھ مہینے پہلے کی بات ہے کہ مسٹر جناح ہمارے صوبے میں تشریف لائے تو اسلامیہ کالج کے پرنسپل نے آپ کو اپنے کالج کے طالب علموں کو لیکچر دینے کی دعوت دی اور سا تھ میں یہ شرط بھی رکھی کہ لیکچر سیاست کے موضوع پر نہیں ہو گا۔ آپ نے بلا توقف اس توہین آمیز دعوت کو قبول کرنے سے انکا ر کر دیا۔ میرے خیال میں اس حیثیت کے مالک کسی بھی عزت دار آدمی کے لیے توہین آمیز بات ہے جب اس کو یہ بتایا جائے /کہا جائے کہ وہ اس صوبے میں تو آسکتے ہیں لیکن اسے اس بات کی یقین دہانی کرانا ہو گی کہ وہ کسی سیاسی و سماجی سر گرمی میں حصہ نہیں لیں گے۔جناب رنگا’’بینک و انشورنس ایمپلائز کانفرنس‘‘ کی صدارت کے لیے تشریف لا رہے تھے۔ یہ کانفرنس یقینی طور پر ایسے لوگوں کی کانفرنس ہے جو گورنمنٹ کے ملازم نہیں ہیں۔ عزت مآب وزیراعظم نے غالباً اس بات پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے اس کانفرنس نے سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے ایک قراردا دپاس کی ہے ۔ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس قرار داد کو پاس کرنے میں پروفیسر رنگا کا کیا کردار ہے ۔اس کانفرنس کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ کسی بھی طرح کی قرارداد پیش کرے مبادہ کہ ایسی قرار داد لوگوں کو ہنگامہ آرائی پر اکساتی ہو ۔ عزت مآب وزیراعظم کی تقریر میں ایسی کوئی بھی بات نظر نہیں آتی جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہو کہ اس کانفرنس کا منعقد ہونا صوبے کے امن کے لیے نقصان دہ بات تھی ۔ امن و امان کی اختراع سب کو آسانی سے سمجھ آنے والی اختراع ہے ۔ میں عزت مآب وزیراعظم سے یہ پوچھتا ہوں کہ کیا ’امن وامان‘کی اختراع عوام کی رائے کو دبائے جانے کے لیے یا عوامی لیڈروں کی سر گرمیوں کو روکنے کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔ آج جب ہم آزادی کی بات کر رہے ہیں اور ایک آزادماحول میں سانس لے رہے ہیں تو یقیناًیہ بہت افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ پروفیسر رنگا اور ان جیسی حیثیت کے مالک شخص کو یہ کہا جائے کہ وہ اس صوبے میں داخل نہیں ہو سکتے کیونکہ اس سے صوبے کے امن وامان کو خطرہ لاحق ہے ۔ جناب وزیراعظم نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ان کو ذاتی طور پر پروفیسر رنگا کی سرگرمیوں کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے ۔ اسمبلی کے وزرا بھی یہ بات کہنے کو تیا ر نہیں ہیں کہ پروفیسر رنگا کسی انقلابی سرگرمی یا دہشت گردی کی کسی مہم سے منسلک ہوں۔میں ان تمام حقائق کے پیش نظر یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پھر کسی بھی شخص کے کہیں بھی جانے کے بنیادی حق میں مداخلت کا کیا جواز ہے ؟اس طرح کے اقدامات جو آئینی /قانونی اختیارات کی ایما پر کیے جاتے ہیں ایسے اقدامات آزادی کے دشمن ہیں اور ان کی ہر حال میں مخالفت ہونی چاہیے اور جتنی جلدی اس طرح کی چیزیں رُک جائیں ،یہ امن و امان کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔ میرے قابل دوست یہ سمجھتے ہیں کہ وہ امن وامان کا نام لے کر جو چاہے کر سکتے ہیں ۔قانون کا نفا ذیقینی طور پر ایک اہم بات ہے اور میں ان سے اتفاق کرتا ہوں کہ قانون کی ہر حال میں پابندی ہونی چاہیے۔ لیکن اگر قانون معاشرے کا ایک لازمی جزو ہے تو اصول ،ضمیر،مفکر،استاد اور مصنف بھی لازمی جزو ہیں ۔ ان تمام معاشرتی محرکات کو جزوی حیثیت دینا حریت پسندی کی نفی کرتا ہے اورآزادی سے تضاد رکھتا ہے یہ قطعی طور پر فوجی نظام کی عکا سی ہے اور وزیر اعظم کا موجودہ فعل ،اگر مجھے اختراع استعمال کرنے کی اجازت ہو تو، صاف طور پر نپولینزم (napoleonism)کی عکاس ہے ۔ جب بھی مفکرین نے کوئی ایسی بات کی ہو جو نپولین کو پسند نہ ہو یا انہوں نے اپنے خیالات کو پیچیدگی سے بیان کیا ہو تو نپولین کو یہی محسوس ہوتا تھا کہ اس کے خلاف فوج میں بغاوت ہو رہی ہے اور وہ اس بغاوت کو دبانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر گزرت تھا۔میں نہا یت ادب کے ساتھ یہ گزارش کرتا ہوں کہ اگر حکومت اپنی حیثیت ایک ذمہ دار اور جمہوری حکومت کے طور پر واضح کرنا چاہتی ہے اور خود کو ایک خود مختار حکومت اور لوگوں کی حکومت کے طور پر منوانا چاہتی ہے تو اس کو بیوروکریسی کے طریقوں پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ہمارے صوبے کی تکریم پر ایک کلنک کے ٹیکے کی طرح ہے جب ہم نے پروفیسر رنگا جیسے شخص کو صوبے میں آنے سے روکا جن کی عوامی حیثیت بلا شبہ مقبولیت کی حامل ہے، اور جو کسی دہشت گرد موومنٹ /تحریک کے ساتھ منسلک بھی نہیں ہیں;خاص طور پر اس موقعے پر جب انہوں نے خود کہا کہ وہ ایک غیر سیاسی کانفرنس میں شرکت کے لیے آرہے ہیں ۔ہم بیوروکریسی کے زیر سایہ زندگیاں نہیں گزار رہے ۔میں پھر کہوں گا کہ اس وقت کئے گئے اس طرح کے اقدامات ہماری سیاسی ساکھ پر ایک بد نما داغ کی طرح اوررہیں گے ۔ّؒ ّّ