خبرنامہ پنجاب

بانیان پاکستان سے معماران پاکستان تک۔۔اسداللہ غالب

ہم نے جو سلوک بانیان پاکستان سے روا رکھا ، وہی سلوک معماران پاکستان سے کر رہے ہیں۔
زیارت ریذیڈنسی میں بانی پاکستان چند روز آرام کرنے گئے تھے،وہاں انہیں محترمہ فاطمہ جناح نے کچھ مہمانوں کی آمد کی اطلاع دی۔قائد نے گلو گیر لہجے میں کہا: فاطی ! تم جانتی ہو یہ لوگ کس مقصد کے لئے آئے ہیں، یہ تسلی کرنا چاہتے ہیں کہ میں کتنے روز مزید زندہ رہوں گا۔
قصہ یہیں ختم، نہیں ہو جاتا۔
قائد کراچی واپس آئے، انہیں ایک کھٹارا ایمبولنس میں لٹایا گیا، جس کا انجن راستے میں جواب دے گیا، ارد گردسے مکھیوں نے یلغار کر دی ، قائد کا چہرہ پسینے سے شرابور ہو رہا تھا۔ دکھوں کی ماری بہن نے اخبار کے ایک صفحے کو پنکھے کے طور پر استعمال کیا۔
اس کے بعد ڈاکٹر کو یہ جاننے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی کہ بانی پاکستان کی نبض ڈوب چکی ہے۔
تحریک پاکستان میں جن لوگوں نے تن من دھن کی بازی لگائی اور جو محبوب وطن پاکستان تک پہنچنے میں قافلہ در قافلہ رستے میں کٹ گئے، ان میں سے کچھ لوگ جو بچ رہے ، انہیں ہم نے پناہ گیر کے خطاب سے نوازا، متروکہ املاک پر پہلا حق ان کا بنتا تھا مگر کراچی اور لاہور کی قیمتی جائیدادوں پر قبضہ کسی اور نے جما لیا۔
اسلامیان ہند کی بے بہا قربانیوں سے حاصل کئے گئے وطن پر پہلا شب خون سول بیورو کریسی نے مارا اور پھر ملٹری بیورو کریسی ان پر بھی حاوی ہو گئی،فیلڈ مارشل ایوب خاں اور جنرل یحی خان نے بانیان پاکستان کی کمائی پرپانی پھیر دیا، اور آدھے ملک کو کاٹ کر الگ کر دیا، باقی ماندہ آدھے ملک پر جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویزمشرف نے ربع صدی تک قبضہ جمائے رکھا۔
بانیان پاکستان کی روحیں تڑپ تڑپ گئیں مگر کسی کو اس مملکت خداداد پر ترس نہ آیا۔
وقفے وقفے سے جمہوری حکومت نے پاؤں جمانے شروع کئے تو پس پردہ قوتوں نے عدم استحکام پیدا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی،اس المئے کا کلائمیکس تب آیا جب دو تہائی اکثریت کی حامل نواز شریف حکومت کو چلتا کیا گیا۔سیاستدان جیسے بھی تھے انہوں نے تہیہ کیا کہ وہ آئندہ ایک دوسرے کی ٹانگیں نہیں کھینچیں گے اور نہ پس پردہ قوتوں کے اشاروں پر ناچیں گے،اس میثاق جمہوریت کے تحت محترمہ بے نظیر جلاوطنی ختم کر کے پاکستان واپس آئیں مگر پہلی ہی نصف شب کو ان کے قافلے پر کاری وار کیا گیا، محترمہ اس سے بچ نکلیں تو لیاقت باغ کے کامیاب جلسے کے بعد انہیں شہید کر دیا گیا۔اس سے پہلے ان کے والد کو بھی پھانسی دے دی گئی تھی، کسی منصف نے اس نکتے پر غور ہی نہ کیا کہ جس شخص کو پھانسی کی سزا سنائی جا رہی ہے،ا س نے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالی تھی۔اور وہ بھیانک صدمہ بھی ا س قوم نے برداشت کیا جب ایٹمی پاکستان کے معمار ڈاکٹر عبدالقدیر کو ٹی وی اسکرین پر بٹھا کر معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا۔
مگر ملک میں پہلی تبدیلی اس وقت دیکھنے میں آئی جب لاہور سے اسلام آباد موٹرو ے بنی۔
ایک تبدیلی ا سوقت واقع ہوئی جب لاہور میں میٹرو بس چلی، پھر یہ پنڈی اور اسلام آباد میں چلی، اب ملتان کی باری ہے اور لاہور کی بھیڑ بھاڑکو ختم کرنے کے لئے آئندہ اورنج ٹرین کا منصوبہ پروان چڑھ رہا ہے، اب آرزو ہے کہ پشاور سے کراچی تک بلٹ ٹرین چلے اور گوادر سے کاشغر تک اقتصادی کوریڈور میں چہل پہل نظرآئے۔
مگر سیاہ کار قوتیں حرکت میں آ چکی ہیں، وہ اس ترقی اور خوش حالی کے سفرمیں کانٹے بکھیرنے میں مشغول ہیں۔
پہلے تو دھرنے کی آڑ میں ایک ناکام کوشش کی گئی، ایک صاحب تو جنون میں کینیڈا سے چلے آئے تھے۔
کون ہے جو ایوب ، یحی ، ضیا اور مشرف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جمہوریت کی منزل کھوٹی کرنے پر تلا ہوا ہے، بظاہر یہ سول چہرے ہیں مگر ان کے عزائم انتہائی مکروہ ہیں۔
پانامہ لیکس نے انہیں ایک ا ور موقع فراہم کر دیا ہے، جس دن سے انہوں نے آئس لینڈٖ کے برف زار سے وزیر اعظم کو بھگانے میں کامیابی حاصل کی ہے ، یہ آپے سے باہر ہو گئے ہیں۔ مگر انہیں پتہ نہیں چلتا کہ پہلے روسی صدر پوٹن کو چلتا کیا جائے یا اپنے وزیر اعظم کو ۔پوتن تو امریکہ کے سامنے ڈٹ گیا ہے اور چین بھی اس کاہم نوا ہے، وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سی آئی اے کی سازش نہیں بلکہ سیاسی دہشت گردی ہے ۔ امریکہ کو پے در پے بیرونی ممالک کے خلاف جارحیت میں ناکامی ہوئی ہے ، اب اس نے دہشت گردی کا لبادہ تبدیل کر لیا ہے ا ور عالمی قوتوں کو غیر مقبول بنا نے ا ور غیر مستحکم کرنے کے لئے پانامہ لیکس کا ڈرامہ رچایا ہے۔ یہ نکتہ جو پوٹن کی سمجھ میں آ گیا ہے، اسے عمران خان جیسا کرکٹ کا کھلاڑی کیسے جان سکتا ہے۔اس کے ارد گرد جہانگیر ترینوں کا جم غفیر ہے، جو باری لینے کے لئے بھاری سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔
روس کے صدر پوٹن کی طرح نواز شریف بھی ڈٹ گیا ہے ا ور اس کا بھائی شہباز شریف تو کسی خو ف وخطر کو خاطر میں لانے کو تیار ہی نہیں ۔انہوں نے بجا طور پر اعلان کیا ہے کہ عوام کھٹارا بسوں ا ور چنگ چی سے نجات کے لئے میٹرو ٹرین منصوبے کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ان کا عزم ہے کہ مٹھی بھر اشرافیہ کے سامنے ہر گز نہیں جھکیں گے۔
عمران خان کے سامنے رکاوٹو ں کی ایک سر بفلک دیوار ہے، انہوں نے آئس لینڈ کے وزیرا عظم کے مستعفی ہونے پر بھنگڑا ڈالا، اب اسپین کے ایک وزیر کے استعفے پر پھدک رہے ہیں مگر ان کے پہلو میں بیٹھے ہوئے جہانگیر تریں جب تک پانامہ لیکس کی آلودگی کو اپنے چہرے سے صاف نہیں کرتے ، تب تک حسین ا ور حسن نواز کو عمران سے کیا ڈر خوف ہے، نواز شریف سے استعفی لینے سے پہلے عمران خان کو جاتی امرا کا گھیراؤ کرنے کے بجائے ماسکو کے ریڈ اسکوئر میں دھرنا دے کر روسی صدر پوٹن سے استعفے لینا پڑے گا جو پانامہ لیکس کے اشو پر امریکہ کو بے نقط سنارہے ہیں۔
ایں خیال ا ست و محال ا ست و جنوں است۔
آنے والے زمانوں میں لوگ اپنے بچوں کو شیخ چلی کے بجائے عمران خان کے ٹوٹکے سناکر بہلانے کی کوشش کیا کریں گے۔یہ شخص معماران پاکستان سے وہی کچھ کرنے کے لئے کوشاں ہے جو ایک زمانے میں کچھ عناصر نے بانیان پاکستان کے ساتھ کیا۔
مگر کون بد بخت ہے جو بانیان پاکستان کے وقار پر دھبہ لگانے میں کامیاب ہوا اور اگر نہیں ہوا تو معماران پاکستان پر بھی کوئی آنچ نہیں آ پائے گی۔
ملک کو خوش حالی چاہئے، استحکام چاہئے، ترقی چاہئے۔اور یہ بڑی تیزی سے آرہی ہے۔
شہبازشریف کی انتھک، شبانہ روز محنت نواز شریف حکومت کی کامیابی پر مہر ثبت کر رہی ہے۔