خبرنامہ پنجاب

مستعفی ہونے کے جتنے مرضی چیلنج دیں، تحقیقاتی اداروں کو روکیں گے تو کیا ثابت ہو گا: خورشید شاہ

لاہور:(اے پی پی)قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ احتساب کی بنیاد نوازشریف نے رکھی‘ احتساب الرحمن اس کے چیئرمین تھے۔ جمہوریت کو احتساب سے خطرہ نہیں جمہوریت ہی احتساب کا بہتر طریقہ ہے مگر یہ بلاتفریق ہونا چاہئے۔ پنجاب میں نیب کی کارروائیوں پر وفاقی اور صوبائی وزراء کے رد عمل سے ظاہر ہے کہ اندر کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ ہے۔ تحقیقات کرنے والے اداروںکو کام سے روکا جائے گا تو پھر کیا ثابت ہوسکے گا۔ ایسے میں دھیلے کی کرپشن ثابت ہونے پر مستعفی ہونے کے جتنے مرضی چیلنج دے دئیے جائیں۔گرینڈ الائنس بنانا کوئی راکٹ سائنس نہیں جب حالات اور وقت کوکسی نہج پر پہنچا دیا جائے تو یہ خود بن جاتے ہیں۔ حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا ہے انکے پاس 30 سے 40 ارکان زیادہ ہونگے مگر انہیں اسکی قیمت بہت ادا کرنا پڑے گی۔ حقیقت میں ایم کیو ایم اسٹیبلشمنٹ کی بے بی ہے لیکن اب یہ بالغ ہو گئی ہے تو نخرے دکھانے شروع کر دئیے ہیںجو پال پوس کر بڑا کرتے ہیں وہ تھوڑے بہت ناراض بھی ہوتے ہیں، حکمرانوں کے لئے پی آئی اے کی نجکاری اتنی اہم ہو چکی ہے کہ وہ فیڈریشن ( سینٹ) کو بھی چیلنج کرنے پر تیار ہیں لیکن انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ امریکہ اور جاپان ایل این جی کے سب سے بڑ ے خریدار ہیں لیکن اب یہ دونوں ممالک پیچھے ہٹ گئے ہیں جس کے بعد ایل این جی فروخت کرنے والے ممالک خریدار ڈھونڈ رہے ہیں ان حالات میں ہم انتہائی کم قیمت پر معاہدہ کر سکتے تھے۔ ایل این جی ڈیل کے حوالے سے بھی باتیں سامنے آرہی ہیں سب کو سمجھ آرہا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں سے آنے والے برسوں میں ہونیوالی ماحولیاتی تبدیلیوں سے پنجاب کی زراعت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد وٹو کی رہائشگاہ پر پارٹی رہنمائوں سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ملاقات میں جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم سید احمد محمود ، پنجاب کے جنرل سیکرٹری تنویر اشرف کائرہ، لاہور کی صدر ثمینہ خالد گھرکی، سہیل ملک عامر، عزیز الرحمن چن، جہاں آراء وٹو، نوید چودھری ، عبد القادر شاہین اور دیگر موجود تھے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ جب نیب اور ایف آئی اے نے چھوٹے صوبوں کے خلاف کارروائی کی تو خوشی منائی گئی اور کہا گیا کہ چیخ کیوں رہے ہو، اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے لیکن جب اسی نیب نے پنجاب کے 150میگا سکینڈلز سپریم کورٹ میں پیش کئے تو وفاقی اور صوبائی وزرا طیش میں آ گئے اور نیب پر دبائو بڑھایا جس کا وقتی طور پر اثر بھی ہوا لیکن جب دوبارہ یہ بات اٹھائی گئی ہے تو پھر وفاقی اور صوبائی وزراء کا رویہ دیکھنے والا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خوف میں ہیں۔ پنجاب کے دو، تین وزراء کے ریکارڈڈ ویڈیوز نیب کے پاس ہیں۔ حکومت کا رد عمل سارے سوالات کا خود جواب ہے۔ جب ماڈل ٹائون میں 15 لوگوں کو شہید 80 سے 90 افراد کو زخمی کیا گیا تب بھی شہباز شریف نے ایسی ہی بات کہی تھی۔ پہلی انکوائری میں جب ان پر بات آنے لگی تو اسے روک کر نئی انکوائری شروع کرا دی پہلی کا کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ چودھری نثار علی خان نے کہا کہ ہم سندھ میں ایف آئی اے کی کارروائیوں پر کمشن بنانے کے لئے تیا ر ہیں جب سندھ نے کہا کہ ٹھیک ہے تو چودھری نثار نے کہا ہم نہیں بنا سکتے۔ اسلام آباد میں 72 میٹرو بسیں ہیں ایک بس ایک ارب روپے میں پڑتی ہے۔ اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کی لاگت 160ارب بتائی جارہی ہے لیکن یہ 200 ارب کا منصوبہ ہے۔ فی مسافر 600 روپے میں پڑے گا حکومت پچاس روپے کرایہ رکھ رہی ہے ، پانچ سوپچاس روپے سبسڈی دی جائے گی یہ اربوں روپے بنیں گے اتنا مہنگا منصوبہ ہمیشہ کے لئے گلے میں پڑ جائے گا۔ پنجاب کا رواں مالی سال کا ترقیاتی بجٹ 400 ارب کا ہے اس میں اورنج ٹرین شامل نہیں تھا۔ پنجاب کے عوام 400ارب کی تقسیم کے بارے میں سوال پوچھ رہے ہیں۔ صرف ایک لاہور شہر کا بجٹ جنوبی پنجاب کے پورے بجٹ سے تین گنا ہے یہ بات ثابت ہو جائے گی جتنی مرضی دفعہ کرپشن کے معاملے پر استعفیٰ دینے کی پیشکش کرتے رہیںجب تحقیقات کرنے والے اداروں کو روکا جا رہا ہو تو پھر کچھ ثابت نہیں ہوگا۔ انہوں نے ترکی کو لاہور میں صفائی، ٹیکسی سسٹم، بس سروس سمیت دیگر کام سونپنے بارے سوال پر کہا کہ پوری دنیا چھوڑ کر صرف ایک دو ممالک کی طرف جانے سے ثابت ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہے ۔ایل این جی 1700ارب کی ڈیل ہے ہم دو ڈھائی سال سے پارلیمنٹ میں چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اس کے بارے میں بتایا جائے لیکن کچھ نہیں بتایا گیا۔ حکومت کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے جو منصوبے لگانے جا رہی ہے ان کی استعداد 37 فیصد اس کی فی میگاواٹ لاگت 1.4ملین ڈالر ہے اگر ہم ہائیڈل پر جائیں تو بھی یہی لاگت بنتی ہے جو پلانٹ ہم چین سے لے رہے ہیں اسی قیمت پر یہی پلانٹ دنیا میں 52 فیصد استعداد کے حامل دستیاب ہیں۔ ہائیڈل منصوبے مشکل ہوتے ہیں لیکن ہمارے پاس 40ہزار میگا واٹ کی استعداد ہے۔ ہائیڈل منصوبوں کے لئے اس وقت 13سے 14مقامات کی نشاندہی ہو چکی ہے جس پر کام ہو سکتا ہے۔ ہم نے بھاشا ڈیم پر 2011ء میں آغاز کیا اور 20ارب روپے رکھے اور وہ زمین کے لئے تقسیم ہو گئے۔ یہ موجودہ حکومت کے لئے پکا پکایا منصوبہ تھا۔ اگر حکومت کی ترجیح توانائی کا بحران کا حل ہے تو پھر سی پیک منصوبے میں بھاشا، اکھوڑی اور منڈا سمیت دیگر منصوبوں کے لئے دس ، دس ارب ڈالر مختص کئے جاتے اس سے 14سے 15ہزار میگا واٹ بجلی کی پیداوار حاصل ہو سکتی ہے۔ عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور نے خورشید شاہ سے ملاقات کی اور انہیں کرپشن اور سانحہ ماڈل ٹائون کے ایشو پر رواں ماہ کے آخر میں بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔ اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے خرم نواز گنڈا پور نے کہا کہ اے پی سی کی حتمی تاریخ تو ابھی طے نہیں ہوئی لیکن اس کیلئے 28 یا 29 مارچ پر مشاورت کی جارہی ہے ۔