خبرنامہ پنجاب

وڈیو فوٹیج جیل منتقلی سے پہلے ایف آئی اے افسر نے بنائی، ملزم خالد شمیم

راولپنڈی:(آئی این پی )ایم کیوایم کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کیس میں ملوث خالدشمیم نے انکشاف کیا ہے کہ اس کے بیان پر مشتمل وڈیو فوٹیج اڈیالہ جیل منتقلی سے قبل مقدمے کے تفتیشی افسر شہزاد ظفر نے اپنے موبائل فون کے ذریعے ایف آئی اے سیل میں بنائی- تفتیشی افسر نے12 مختلف کلپ بنائے تھے اور انھیں مناسب وقت پر منظرعام پر لانے کا عندیہ دیا تھا جبکہ تفتیشی افسر شہزاد ظفر نے ملزمان کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ جمعہ کے روز وزارت داخلہ کے احکامات پر ڈائریکٹر ایف آئی اے اسلام آباد زون مظہرالحق کاکاخیل، ڈپٹی ڈائریکٹر شہاب عظیم اور ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے اس وقت کے انویسٹی گیشن افسر شہزاد ظفر اڈیالہ جیل پہنچے اور خالد شمیم کے بیرک میں جاکر اس کا بیان قلمبند کیا۔ جب انویسٹی گیشن ٹیم نے خالد شمیم سے استفسارکیا کہ منظرعام پر آنیوالی اس کی وڈیو فوٹیج کب، کہاں اور کس نے بنائی؟ تو خالد شمیم نے ایف آئی اے کے تفتیشی افسر شہزاد ظفرکی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا وڈیو فوٹیج آپ نے عدالت میں پیش کرنے سے ایک دن قبل ایف آئی اے سیل میں بنائی، ہیڈفون بھی آپ نے ہی دیا، وڈیو بنانے سے قبل دیوارکو چھپانے کیلیے عقب میں سیاہ چادر لٹکائی تاکہ جگہ کی شناخت کو چھپایا جاسکے۔ خالد شمیم نے بتایا شہزاد ظفر نے اپنے موبائل سے اس کے12 مختلف کلپ بنائے اور کہاکہ انھیں مناسب وقت آنے پر منظر عام پر لایا جائیگا، اس ریکارڈنگ سے ایف آئی اے کے دوسرے افسران بھیب اخبر تھے۔ خالد شمیم نے ڈائریکٹر مظہرالحق اور ڈپٹی ڈائریکٹر شہاب عظیم کے سامنے برملا انداز میں شہزاد ظفر کو مخاطب کرکے کہاکہ شہزاد صاحب آپ کو تو انکوائری کیلیے خود نہیں آنا چاہیے تھا جس پر شہزاد ظفر نے اپنے ساتھی افسران سے کہاکہ یہ سب کچھ غلط کہہ رہا ہے۔ مظہرالحق کاکاخیل نے خالد شمیم سے کہا اپنا بیان تحریری طور پر دو جس پر اس نے اپنا بیان تحریری طور پردیا۔ بعدازاں انکوائری ٹیم اسلام آباد روانہ ہوگئی جہاں معاملے کے انکوائری آفیسر اسپیشل سیکریٹری داخلہ شعیب صدیقی نے سپرنٹنڈنٹ جیل سعیدگوندل، ڈائریکٹر ایف آئی اے مظہرالحق کاکاخیل اور ڈپٹی ڈائریکٹر شہاب عظیم کوملزم کے تحریری بیان سمیت میٹنگ کیلیے بلایا جس میں سیکریٹری داخلہ طارق محمود بھی موجود تھے۔ شعیب صدیقی نے سپرنٹنڈنٹ جیل سعید گوندل اور ایف آئی اے انکوائری ٹیم کے افسران سے ملزم سے کی جانیوالی تفتیش کے متعلق سوالات کیے۔ تفتیشی افسرظفر نے خالد شمیم کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا اور ساتھ ہی یہ جواز پیش کیاکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایف آئی اے کے کسی دوسرے اہلکار نے یہ وڈیو بنائی ہو۔ ذرائع کے مطابق سپرنٹنڈنٹ جیل سعیدگوندل نے تجویز دی کہ حقائق سامنے لانے کیلیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی جائے جو تفتیشی حکام کے موبائل فونزکی جیوفینسنگ اور فارنسک چھان بین کرے تو تمام صورتحال واضح ہوجائے گی کہ وڈیو کس کے موبائل سے بنی، کب اور کہاں ریکارڈنگ کی گئی۔ معلوم ہوا ہے کہ میٹنگ کے دوران سپرنٹنڈنٹ جیل کی جانب سے جے آئی ٹی کی تشکیل اور موبائل فون کے ریکارڈ کی فارنسک چھان بین کی تجویز کو سراہا گیا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے وزارت داخلہ کی انکوائری ٹیم نے فوٹیج کے حوالے سے ابتدائی رپورٹ تیار کرلی ہے اور ملزم کے انکشافات کے حوالے سے مزید تحقیقات کیلیے جے آئی ٹی کے قیام کی سفارش کی ہے۔ یہ ابتدائی رپورٹ آج وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کو پیش کیے جانیکا امکان ہے۔ جبکہ ایف آئی اے کے تفتیشی افسر شہزاد ظفر کا موبائل فون اٹینڈ نہ ہوسکا۔ واضح رہے کہ جنوری سے اڈیالہ جیل میں قید خالد شمیم کی وڈیو فوٹیج منظر عام پر آنے کے بعد وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے جمعرات کو نوٹس لیتے ہوئے وزارت داخلہ کے اسپیشل سیکریٹری شعیب صدیقی کی سربراہی میں انکوائری ٹیم تشکیل دی تھی جس نے فوری طور پر اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ سعیدگوندل کا ریکارڈ قلمبند کیا جنھوں نے جیل میں ویڈیو کی ریکارڈنگ کی نفی کی۔