خبرنامہ پنجاب

پنجاب اسمبلی میں سوالوں کے جواب نہ آنے پر سپیکر کا اظہار برہمی

لاہور(ملت + آئی این پی)پنجاب اسمبلی میں سوالوں کے جوابات نہ آنے پر سپیکر کا سخت اظہار برہمی ‘پار لیمانی سیکرٹری خزانہ کو ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی ہدایت کردی جبکہ حکومت نے ایوان نے بتا یا ہے کہ ضلعی حکومتوں کے پیرا میڈ یکل سٹاف کی تنخواہیں محکمہ صحت کے پیرا میڈ یکل سٹاف کے برابر کر نے کیلئے وزیر اعلی کو سمری ارسال کردی گئی ہے ‘پنجاب میں ایک سال کے دوران دینی مدارس کو78لاکھ روپے کی گر انٹ جاری کی گئی ہے ‘لاہور کے شوکت خانم ہسپتال سمیت دیگر ہسپتالوں میں غر یب مر یضوں کے علاج کیلئے زکواۃ عشرسے فنڈز دیتے جاتے ہیں‘زکواۃ وعشر کمیٹیاں کسی بھی غر یب شخص کو کو کم ازکم 1ہزار روپے زکواۃ وعشر سے ملتا ہے جو صرف ایزی پیسہ کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے ۔ جمعرات کے روز سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال خان کی صدارت میں ہونیوالے اجلاس میں محکمہ خزانہ کے متعلق سوالوں کے جوابات صوبائی پار لیمانی سیکرٹری رانا بابر حسین اور محکمہ زکواۃ وعشر کے متعلق سوالوں کے جوابات صوبائی ملک ندیم کامران نے دےئے جبکہ اس موقعہ پر (ق) لیگ کی خدیجہ عمرکے سوال سمیت 2سوالوں کے جوابات ایجنڈے میں نہ آنے پر سپیکر نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان سوالوں کے جوابات کیوں نہیں آئے ؟سوالوں کے جوابات کو یقینی بنایا جائے اور آئندہ اجلاس میں ان سوالوں کے جوابات کو ایجنڈے میں شامل کیا جائے اس موقعہ پر محکمہ خزانہ کی جانب سے ایوان کو دےئے جانیوالے ایک تحر یر ی جواب کا حوالہ دیتے ہوئے (ق) لیگ کے سر دار وقاص موکل نے ایوان کے سامنے انکشاف کیا کہ پنجاب حکومت نے لاہور ٹر انسپورٹ کمپنی کو ملازمین کی تنخواہیں ‘انکی پنشن اور دیگر ضروریات کیلئے قر ضہ دیا ہے اور معاہدے میں یہ بھی لکھا ہے کہ کمپنی اپنے اثاثے فروخت کر کے حکومت کو قرضہ واپس کر یں گی یہ حکومت اس صوبے کیساتھ کیا کر رہی ہے کیا اثاثوں کو فروخت کر کے ادارے چلائیں جائیں گے؟حکومت نے بجٹ میں ایسے کمپنیوں کیلئے فنڈز کیوں نہیں رکھے اور 11ایسی کمپنیاں ہیں جن قر ضہ حکومت نے دیا ہے کسی کو بجلی کے بلوں کی ادائیگی کیلئے بھی قر ضہ دیا جا رہا ہے جس کے جواب میں پار لیمانی سیکرٹری رانا بابر حسین نے ایوان کو بتایا کہ ہم واسا اورٹر انسپورٹ کمپنی سمیت جن کو بھی قر ضے دیتے ہیں اس کا مقصد ان اداروں کی کار کردگی بہتر بنانا اور عوام کو سہولتوں کی فراہمی ہوتا ہے اور اگر کوئی ادارہ قرضہ سے بجلی کے بلوں کی ادائیگی کر تا ہے تواس کا مطلب ہے کہ اس ادارے کے پاس آمدن کم اور وسائل زیاد ہے مگراسکے باوجود وہ قوم کو سہولتوں کی فراہمی یقینی بنارہا ہے جن کمپنیوں کو5سال کیلئے قر ضہ دیا جاتا ہے وہ2سال حکومت کو ادائیگی نہیں کر تی اور جن کو 7سال کیلئے قر ضہ دیا جاتا ہے انکو 3سال کے بعد حکومت کو قر ضہ واپس کر نا ہوتا ہے ۔ (ن) لیگ کے رکن کر نل (ر)محمد ایوب خان کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری نے ایوان کو بتایا کہ ضلعی حکومتوں کے تحت چلنے والی میڈیکل ڈسپنری میں کام کر نیوالے پیرامیڈ یکل سٹاف کی تنخواہیں بھی محکمہ صحت کے پیرا میڈ یکل سٹاف کے ملازمین کے برابر کر نے کیلئے وزیر اعلی کو سمری ارسال کردی ہے اور امید ہے کہ جلد سمری کی باقاعدہ منظور دیدی جائیگی محکمہ زکواۃ وعشر کے متعلق سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے صوبائی وزیر ملک ندیم کامران نے ایوان کو بتایا کہ پنجاب میں زکواۃ وعشر کی کمیٹیاں پورے صوبے میں مکمل طور پر فعال ہے اور پنجاب میں کسی بھی شعبے میں ضرورت مند کو کم ازکم 1ہزار روپے دیا جا تا ہے اور پنجاب میں صرف ان دینی مدارس کو زکواۃ وعشر سے فنڈز دےئے جاتے ہیں جن کی پنجاب کا ہوم ڈیپارٹمنٹ باقاعدہ منظوری اور کلےئرنس دیتا ہے اور پنجاب میں ایک سال کے دوران78لاکھ روپے دینی مدارس کو دےئے ہیں اور جسکے دینی مدرسے کے پاس جتنے سٹوڈنٹس ہوتے ہیں اس کو سامنے رکھتے ہوئے ہی فنڈذ دےئے جاتے ہیں پنجاب کے اضلاع کی کمیٹیوں کو8فیصد فنڈز شادی گرانٹ اور3فیصد دینی تعلیم کیلئے دےئے جاتے ہیں ۔ (ن) لیگ کے رکن اشرف علی انصاری کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر نے کہا کہ پنجاب میں محکمہ زکواۃ وعشر کی کمیٹیوں کا ڈویژنل سطح پر ہم حکومت جبکہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان بھی آڈٹ کر تا ہے جہاں ضرورت ہوتی ہے وہاں سپیشل آڈٹ بھی کروایا جا تا ہے اور جو فنڈز استعمال نہیں ہوتے وہ اگلے سال میں استعمال کر لیے جاتے ہیں انکو ضائع نہیں کیا جا تا۔ پیپلزپارٹی کی رکن اسمبلی فائزہ احمد ملک کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر ملک ندیم کامران نے ایوان کو بتایا کہ صرف لاہور پورے پنجاب میں غر یب مر یضوں کے علاج کیلئے ہسپتالوں کو فنڈز دےئے جاتے ہیں لاہور کے گنگارام کو50لاکھ روپے ‘جنرل ہسپتال کو2کروڑ‘پی آئی سی کو 1کروڑ20لاکھ روپے ‘انمول ہسپتال کو 1کروڑ5لاکھ روپے جناح ہسپتال کو60لاکھ روپے ‘شوکت خانم ہسپتال کو1کروڑ20لاکھ روپے اور گھر کی ہسپتال کو 60لاکھ روپے سے زائد کے فنڈذ دےئے جاتے ہیں ان میں ضرورت پڑنے پر ہر سال اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے