خبرنامہ پنجاب

پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں سہولیات کا فقدان

لاہور:(ملت+اے پی پی) پنجاب کے اسپتال مسائل کا گڑھ بنتے جارہے ہیں جب کہ سہولیات کے فقدان کے باعث مریضوں کو نہ صرف مشکلات کا سامنا کرپڑتا ہے بلکہ کئی مریض جان کی بازی بھی ہار جاتے ہیں۔ اپنے آپ کو خادم اعلیٰ کہلوانے والے شہباز شریف اربوں روپے کی لاگت سے میٹرو منصوبے تو تیار کررہے ہیں لیکن صوبے کے سرکاری اسپتالوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔ صوبے بھر میں شائد ہی کوئی ایسا سرکاری اسپتال ہو جہاں غریبوں کو مکمل احترام کے ساتھ علاج معالجے کی سہولت میسر ہو۔ جناح اسپتال لاہور میں مریضوں کی خواری روزانہ کا معمول بنتا جا رہا ہے، کوئی علاج کے لیے ترس رہا ہے تو کسی کی باری ہی نہیں آ رہی جب کہ آج اسپتال کے گارڈز نے مریضہ کے لواحقین کو پیٹ ڈالا، جس پر معاملہ بڑھ گیا اور فریقین نے ایک دوسرے کو دھکے بھی دیے۔ لواحقین کا کہنا تھا کہ اسپتال عملہ پیسے لیے بغیر اندر نہیں جانے دیتا ہے۔ ملتان میں جنوبی پنجاب کی واحد بڑی علاج گاہ نشتراسپتال مسائل کا گڑھ بن گئی۔ اسپتال میں ڈاکٹرز، ادویات ، بیڈز اوردوسری سہولتوں کی شدید کمی ہے، 1100 بستروں کے اس اسپتال میں روزانہ 2200 سے 2500 مریضوں کو داخل کیا جاتا ہے جب کہ بچوں کے علاج کے لیے یہاں 72 بستروں پرمشتمل صرف دو وارڈز ہیں اور ایک بستر پر 5، 5 بچوں کا علاج روز کا معمول ہے۔ اس اسپتال میں 2 سال پہلے 600 بستروں کا اضافہ منظور کیا گیا تھا مگر وہ اضافہ صرف کاغذوں تک ہی محدود رہا۔ ملتان کا سول اسپتال تو چند کمروں پر مشتمل ہےجو ایک دیہی مرکز صحت ہی لگتا ہے، کارڈیالوجی اسپتال میں ٹیسٹوں کے لیے کئی ماہ کی لمبی تاریخ دے دی جاتی ہے جب کہ کڈنی سینٹرکو نجی ادارے کی تحویل میں دیا جا چکا ہے۔ نشتر اسپتال کے تین نمبر وارڈ میں 12 سال سے کم عمر جل جانے والے بچوں کا علاج کیا جاتا ہے لیکن برن یونٹ میں بھی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی طرح راولپنڈی کے تینوں بڑے اسپتالوں میں بھی علاج معالجے کی سہولتوں کا شدید فقدان ہے، وارڈز میں بیڈز کی کمی کی وجہ سے ایک بیڈ پر 2 سے 3 مریضوں کو لٹایا جاتا ہے، جب کہ راولپنڈی ڈویژن بھر میں ایم آر آئی ٹیسٹ مشین ہی موجود نہیں اور وینٹی لیٹرز کی تعداد بھی انتہائی کم ہے جب کہ شعبہ سرجری میں مریضوں کو آپریشن کے لیے 6، 6 ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ راولپنڈی کے سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹرز مریضوں کو پرائیویٹ لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کا مشورہ دیتے ہیں جس کی بڑی وجہ اسپتالوں کی لیبارٹریوں میں تعینات ناتجربہ کارعملہ اور مشینری کی کمی ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں ڈائیلاسسز کے مریضوں کی تعداد زیادہ اور مشینیں کم ہیں، جس سے مریضوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔