خبرنامہ پنجاب

پنچائیت سسٹم کے قیام کا تاریخی بل اتفاق رائے سے منظور کرلیا

اسلام آباد (آئی این پی) قومی اسمبلی میں جمعہ کو ریاستی سرپرستی میں پنچائیت سسٹم کے قیام کا تاریخی بل اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا ہے‘ قانون کو تنازعہ جاتی تصفیہ کا نام دیا گیا ہے‘ فوجداری و دیوانی تنازعات کے جلد حل کے لئے پنچائیت و مصالحتی کمیٹیاں قائم ہوں گی‘ سائلین کو ان تنازعات کے حل کیلئے تھانوں ‘ کچہریوں کے چکر لگانے سے نجات مل جائے گی۔ گزشتہ روز ایوان میں وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے عدل و انصاف کے متبادل تنازعہ جاتی تفصیہ کے لئے احکام وضع کرنے کا بل 2017 پیش کیا ۔ وزیر قانون نے کہا کہ تاریخی بل ہے بل کو وسیع تر حمایت حاصل ہے۔ قائمہ کمیٹی میں بھی بل کی اتفاق رائے سے توثیق کی گئی ہے تنازعات کے حل کے لئے تمام اضلاع میں ہائی کورٹس کی مشاورت سے اے ڈی آر سنٹرز بنیں گے۔ اس غیر جانبدار پینل میں سماجی کارکنان علماء کرام بھی شامل ہونگے۔ مالی تنازعات کے حل کے لئے بھی مصالحتی کمیٹیاں کام کریں گی۔ قانون کا اطلاق دیوانی و فوجداری دونوں قسم کے مقدمات پر ہوگا۔ 23اقسام کے تنازعات کی بل میں نشاندہی کی گئی ہے شیڈول میں ان کو شامل کردیا گیا ہے۔ اپوزیشن اراکین ڈاکٹر عارف علوی‘ نفیسہ شاہ‘ صاحبزادہ یعقوب‘ شفقت محمود اور ایس اے اقبال قادری و دیگر نے اصولی طور پر بل کی حمایت کی تاہم اپوزیشن نے پنچائیت و جرگہ کی واضح تشریح کرنے اور غیر جانبدار پینل کی نامزدگیوں کا اختیار عدلیہ تک محدود رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ شفقت محمود نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جرگہ پنچائیت میں نامزدگیوں کا اختیار حکومت کے پاس ہونے کی وجہ سے سارا سسٹم سیاست کی نذر ہوجائے گا۔ سیاسی نامزدگیوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا اور اضلاع میں اپنے لوگوں کو نوازا جائے گا۔ پنچائیتی سسٹم انقلابی ہے اسے سیاست سے دور رکھا جائے اور ایے ڈی آر سنٹرز میں نامزدگیوں کا اختیار صرف اور صرف عدلیہ کے پاس ہونا چاہئے۔ جماعت اسلامی کے صاحبزادہ محمد یعقوب نے بھی بل کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے وزیر قانون و انصاف کو مبارکباد دی جماعت اسلامی کے رکن نے کہا کہ قبائل میں فریقین کی جانب سے جرگوں میں نزمزدگیوں کی وجہ سے یہ غیر جانبدار نہیں رہے پنچائیت میں صرف اور صرف معززین علاقہ اور ماہرین کو آنا چاہئے۔ موجودہ عدالتی نظام سے عوام انتہائی پریشان اور تنگ ہیں عدالتی طوالت سے مایوسی پھیلتی ہے غیر جانبداری سے مصالحت و مفاہمت کیلئے یہ بل انتہائی اہم ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ طوالت سے مظلوم مایوس ہو کر پیچھے ہٹ جاتا ہے اس وقت عدالتوں میں پندرہ لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں پنجاب و سندھ کی عدالتوں میں ساٹھ ہزار مقدمات مصالحت کے لئے زیر التواء ہیں۔ مقدمات طویل ہونے سے معاشرے میں نفرتیں بڑھ رہی ہیں برطانیہ میں جب یہ قانون بنا تو وہاں خوشی سے شادیانے بجائے گئے۔ اس سسٹم کیلئے جسٹس سعید الزمان صدیقی مرحوم نے اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے خواتین کے تحفظ سے متعلق شق کو بل کا حصہ بنانے کی تجویز دی ہے۔وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے کہا کہ بنیادی طور پر تمام ارکان نے بل کی افادیت کو تسلیم کیا ہے انصاف کو متبادل نظام پر سب نے اتفاق کیا ہے نسل در نسل مقدمات چلتے ہیں فوجداری مقدمات میں قابل صلح معاملات کو بل میں شامل کیا گیا ہے۔ حکومت کا کام صرف سہولت کاری ہوگی مقدمات کو غیر جانبدار پینل کے پاس لے جانے کا فیصلہ دونوں فریقین کریں گے۔ پنچائیت سسٹم کو قانونی شکل دی جارہی ہے یہ مصالحتی باڈی ہوں گی مقامی روایت کے مطابق جرگہ پنچائیت‘ مصالحتی کمیٹی بنے گی۔ فاتا اصلاحات میں جرگہ کو قانونی شکل دی جائے گی۔ نامزدگیوں کے لئے حکومت نے اپنے اختیار کو سرنڈر کیا ہے۔ سبکدوش ججز بھی پینل میں شامل ہونگے۔ عدلیہ نگرانی کرے گی کہ حکمران جماعت کے لوگ ج رگہ پنچائیت و مصالحتی کمیٹیوں میں شامل نہ ہوسکیں۔ یہ بل صوبوں کے لئے فعال ہوگا۔ یونین کونسلوں کی سطح تک میونسپل کورٹس کے قیام کا بل لارہے ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں سے ان معاملات پر قراردادیں آجائیں گی اور ملک بھر میں قانون کا اطلاق ہوگا۔ فی الوقت یہ قانون اسلام آباد کے لئے ہے۔ تنازعہ میں مصالحت کا فیصلہ ہمیشہ کیلئے ہوگا اور اس حوالے سے کوئی اپیل نہیں ہوسکے گی۔ کوئی خاتون تنازعہ کے اس متبادل طریقہ کار سے مطمئن نہیں ہوگی تو وہ براہ راست عدالت سے رجوع کرسکے گی۔ کسی پر اس پنچائیت سسٹم سے استفادہ کرنے کا جبر نہیں ہوگا۔ یہ بل ماڈل ہوگا اور پورے پاکستان میں نافذ کریں گے۔ شق وار خواندگی کے بعد وزیر قانون و انصاف نے پنچائیتی سسٹم کے قیام کیلئے سول و فوجداری معاملات متبادل تنازعہ جاتی تصفیہ بل 2017 منظوری کیلئے پیش کیا بل کو اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا