خبرنامہ پنجاب

ڈی ایس پی عبداللہ جان نے میری آنکھوں کےسامنےگولیاں ماریں: گواہان

لاہور(آئی این پی)سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس میں عوامی تحریک کے مزید 2گواہوں حافظ محمد وقار اور صوفی محمد طفیل نے انسداد دہشتگردی کی عدالت لاہور میں اپنے بیانات قلمبند کروائے۔استغاثہ کیس میں مجموعی طور پر 42 زخمی اور چشم دید گواہان اپنے بیانات قلمبند کروا چکے ہیں۔حاجی محمد طفیل جو عوامی تحریک شیخوپورہ کے صدر ہیں نے اپنے بیان میں کہا کہ ایس پی معروف صفدرواہلہ اور ایس پی ندیم نے دیگر نفری کے ہمراہ مجھ پر تشدد کیا۔میرے سر پر ڈنڈا مارا اور مجھے شدید زخمی کیا اور پھر زخمی حالت میں ہی اغواء کر کے نامعلوم مقام پر لے گئے۔انہوں نے پولیس تشدد کی تصاویر بھی عدالت میں پیش کیں۔پولیس اہلکار پرامن مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ ،ڈنڈے برساتے رہے او رزخمیوں کو گھسیٹ کر نامعلوم مقام پر لے جاتے رہے۔حافظ وقار نے اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ 16 اور 17 جون کی درمیان شب ایک بجے پولیس کی بھاری نفری ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کی طرف جاتے دیکھ کر ہم فوراً وہاں پہنچے تو وہاں پر رانا عبدالجبار ڈی آئی جی آپریشنز اور ایس پی طارق عزیز ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کی طرف یہ کہتے ہوئے بڑھ رہے تھے کہ جنگلوں کے ساتھ ساتھ سب کو ختم کر دیں۔ ہم خرم نواز گنڈاپور ناظم اعلیٰ منہاج القرآن کی معیت میں متذکرہ پولیس افسران کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ یہ بیریئر عدالت کے حکم پر لگے ہیں اور دہشتگردوں کی طرف سے سنگین نتائج کی دھمکیوں کے خطوط ملنے کے بعد لگے اس موقع پر ڈی آئی جی نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کا حکم ہے کہ ان بیریئر کو ہٹا دیا جائے اور مزاحمت پر قادری خاندان کا نام و نشان مٹا دیا جائے۔انہوں نے کہاکہ اس موقع پر میڈیا کے نمائندے بھی بڑی تعداد میں موجود تھے اور پولیس افسران نے ہماری ایک نہ سنی اور ہلہ بول دیا۔آنسو گیس کی شیلنگ اور پتھراؤ شروع کر کے ہمارے کارکنوں کو مسلسل مشتعل کرتے رہے۔سربراہ عوامی تحریک کی رہائش گاہ کے پاس سکیورٹی پوسٹ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا اور اس توڑ پھوڑ میں پولیس نے قرآن مجید کے چار نسخوں کی بھی بے حرمتی کی جن کے اوراق زمین پر بکھر گئے۔حافظ وقار نے اپنے بیان میں کہا کہ ڈی ایس پی قلعہ گجر سنگھ عبداللہ جان نے میری آنکھوں کے سامنے سرکاری ایس ایم جی سے صوفی اقبال کو منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے سامنے پارک میں چہرے پر گولیاں مار کر قتل کیا ۔انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ وزیراعظم نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے اپنے قابل اعتماد پولیس افسر مشتاق سکھیرا کو جو آئی جی بلوچستان تھے خصوصی طور پر پنجاب کا آئی جی لگایا تاکہ وہ اپنے اس منصوبے پر عمل کر سکیں۔انہوں نے کہا کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آئی جی آفس کا کانسٹیبل احسن بٹ وائر لیس پر مسلسل ڈی آئی جی عبدالجبار کو شاندار کارکردگی پر آئی جی کی طرف سے مبارکباد دیتا رہا اور وائرس سیٹ کی یہ آوازیں میں نے خود سنیں۔استغاثہ کیس کی مزید سماعت 9 اگست کو ہو گی جبکہ پولیس کی طرف سے جمع کروائے گئے چالان کی سماعت 17 اگست کی طرف ملتوی کر دی گئی۔ عدالت میں مستغیث جواد حامداورعوامی تحریک کے وکلاء رائیبشیر احمد ایڈووکیٹ، نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، سردار غضنفر حسین ایڈووکیٹ، اشتیاق چودھری ایڈووکیٹ اور چودھری محمد شکیل ممکا ایڈووکیٹ موجود تھے۔