قومی دفاع

آپریشن ضربِ عضب سےمثبت تصویر پیش ہو گی،امریکہ

لاہور (آئی این پی )امریکی قونصل جنرل زیکری ہارکن رائیڈر نے کہا ہے کہ میں نے پاکستان کو افغان اور بھارت کے نقطہ نظر سے دیکھا ہے جو کہ بہت خوشگوار نہیں تھا،میں نے یہ طے کیا تھا کہ میں وسیع النظر ہو کر پاکستان جاؤں گا، آپریشن ضربِ عضب اور دوسرے اہم منصوبوں کی وجہ سے مستقبل میں پاکستان کی بہت مختلف اور مثبت تصویر پیش ہو گی، امریکا بھارت تعلقات اور پاک امریکہ تعلقات کی الگ الگ اہمیت ہے، میں پاکستان کے مستقبل سے بہت پر امید ہوں ،بڑھتی معیشت ایشیا کی کامیاب مثال ہو گی۔ پیر کو ایک انٹرویو میں انہوں نے کہامیں نے پاکستان کو افغان اور بھارت کے نقطہ نظر سے دیکھا ہے جو کہ بہت خوشگوار نہیں تھا اور میری اپنی رائے بھی ناخوشگوار تھی اب میں جنوبی ایشیا کے معاملات پر عبور حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔اسی لیے میں نے اس سے پہلے افغانستان اور بھارت میں فرائض سر انجام دیے ہیں۔ ان پڑوسی ممالک کی اپنی اپنی رائے ہے لیکن میں نے یہ طے کیا تھا کہ میں وسیع النظر ہو کر پاکستان جاؤں گا اور ایسا ہی کیا اور میں نے جو کچھ پچھلے تین سال میں سیکھا ہے وہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔میرے اس تجربے کی بنا پر میری اس خطے کے بارے میں معلو مات میں جو خلا تھا وہ پْر ہو گیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہادنیا میں کہیں کا بھی میڈیا ہو اس میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ اس پر عمل کرتے ہیں لیکن کبھی کبھار ان سنسنی خیز خبروں کی وجہ سے بہت سی دوسری مثبت خبریں دب جاتی ہیں جیسے کہ معاشی ، معا شرتی اور تحفظاتی خبریں۔ میں اس بات پہ زیاد ہ زور دیتا ہوں کہ ایسی مثبت خبروں کو ہمیں زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ہارکن رائیڈر نے کہا کہ میرے خیال میں آپریشن ضربِ عضب اور دوسرے اہم منصوبوں کا آغاز کی وجہ سے مستقبل میں پاکستان کی بہت مختلف اور مثبت تصویر پیش ہو گی۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کی کامیابی کو یہی میڈیا حقیقت کی شکل دے گا۔ اس کامیابی کا احساس پہلے علاقائی سطح پر محسوس کیا جائے گا اور پھر میڈیا کے ذریعے دنیا میں پھیلے گا۔ اگر ہم ان حقائق کا موازنہپاکستان کے ہمسایہ ملک کے حقائق سے کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آج سے بیس سال پہلے کے حقائق آج سے بہت مختلف تھے۔ یہ بات مجھے وہاں کام کرنے سے واضح ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حقائق میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی لائی جا سکتی ہیں۔امریکی قونصل جنرل نے کہاکہ امریکا بھارت تعلقات اور پاک امریکی تعلقات کی الگ الگ اہمیت ہے۔ ہم ان چیزوں کو ایک تناظر میں نہیں دیکھتے۔ہمیں نہیں لگتا کہ ان روابط کا آپس میں کوئی تعلق ہے۔ ہم ان دونوں ممالک میں مربوط تعلقات کے حامی ہیں۔ہارکن رائیڈرنے ایک سوال کے جواب میں کہا کانگریس کے کئی ارکان کے تحفظات کا بھارتی لابی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ حقانی نیٹ ورک پاکستان کی سرزمین سے افغانستان میں موجود اتحادی افواج پر حملوں کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انہو ں نے کہاکہ حقیقتاً امریکہ بھی پاکستان کی طرح ایک بڑی اور متحرک جمہوریت ہے وہاں پر کانگریس ، میڈیا اور عام عوام میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں لیکن ہمیں حکومتی پالیسی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔اس حکومت کے پاکستان سے تعلقات کے بارے میں پالیسی انتہائی واضح ہے ا ور امریکی باہمی مفادات کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ جیسے کے اس معاشی سال 2017 میں حکومت نے پاکستان کی عالمی امداد کرنے کی سفارش کی ہے جو کہ سویلین سائڈپر 860 ملین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ ہم نے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں 900 ملین ڈالر مہیا کئے ہیں تاکہ پاکستانی افواج اپنے مغربی بارڈر پر استحکام لا سکے۔ یہ حقائق ہیں رائے بہت ہیں، حقائق کم ہیں لیکن یہ حقائق پاکستان پر امریکی پالیسی کو واضح کرتے ہیں۔ اس تعلق کو ہم بہت اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔