قومی دفاع

آئی ایس آئی، ایم آئی کو’’سازش‘‘کاحصہ قراردینے کی حکومتی کوششیں

لاہور(ملت آن لائن)سپریم کورٹ کے حکم پر پاناماکیس کی جے آئی ٹی میں شامل ’’آئی ایس آئی‘‘ اور’’ایم آئی‘‘ کے خلاف منظم پروپیگنڈا مہم کے ذریعے انھیں ’’سازش‘‘ کا ذمہ دار قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس کوشش میں حکومت اور میڈیا کے بعض حلقے اس حقیقت کو دانستہ طور پر جھٹلا رہے ہیں کہ ملک کی اعلی ترین عدالت کے5 سینئر موسٹ جج صاحبان نے پاناماکیس کی سماعت کی تھی اوردوججز نے وزیراعظم نواز شریف کیخلاف نااہلی کا فیصلہ دیا تھا جبکہ تین ججز نے بھی میاں صاحب کو کلین چٹ نہیں دی تھی بلکہ انھوں نے بعض دستاویزات اور حقائق کی مزید جانچ پڑتال کیلیے6 رکنی جے آئی ٹی تشکیل دی تھی اور آئین کے آرٹیکل190 کے تحت ’’آئی ایس آئی‘‘ اور’’ایم آئی‘‘جو ملک کیلیے ’’پہلی دفاعی لائن‘‘ تصور کی جاتی ہیں ۔

انھیں بھی جے آئی ٹی کا حصہ بنایا گیا ہے۔ جے آئی ٹی کی تشکیل کے فیصلے کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے 13 سوالات پر مشتمل ’’ٹی او آرز‘‘ بھی جے آئی ٹی کو فراہم کیے تھے، ابھی تک جے آئی ٹی کی تمام تر تحقیقات، تفتیش اور ملزمان و گواہان سے پوچھے گئے سوالات انہی 13 سوالات کے دائرہ کار کے اندر ہیں۔ اگر جے آئی ٹی نے 13 سوالات کے دائرہ کار سے باہر نکل کرکسی سے سوال پوچھے تب توشریف فیملی کا اعتراض جائز ہو سکتا ہے لیکن جب تمام تر سوالات عدالتی ٹی او آرز کے تحت ہی ہو رہے ہیں تو شو رکیوں مچایاجارہا ہے۔ دختر اول مریم نواز شریف کی پیشی مکمل طور پر ایک قانونی تقاضا تھا کیونکہ سپریم کورٹ کے13سوالات میں یہ تھا کہ ’’نیلسن‘‘ اور ’’نیسکول‘‘کا اصل بینیفشری کون ہے۔

اس سوال کے جواب کیلیے مریم نواز کی پیشی ہرصورت ہونا تھی لیکن حکومت نے رائی کا پہاڑ بنا ڈالااوریہ تاثردیا گیا جیسے انتقام کی خاطر مریم کی پیشی ہوئی ۔ دلچسپ امر یہ کہ مریم نواز عدالتوں اور جے آئی ٹیز میں پیش ہونے والی پہلی خاتون نہیں ہیں، مادر ملت فاطمہ جناح، بینظیرشہید، نصرت بھٹو، شہلا رضا ، شرمیلا فاروقی، عاصمہ جہانگیر سمیت پاکستان کی نامور خواتین کو ایسی صورتحال کا سامنا رہا ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے خوب کہاکہ مریم نواز کی پیشی کو مظلوم عورت کی حیثیت سے پیش کرنا نامناسب تھا۔ پروپیگنڈا عناصر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ سب کچھ فوج کی جانب سے کیا جا رہا ہے اوراسی لیے نوازشریف، شہباز شریف، اسحق ڈار، سعد رفیق، رانا ثنا اللہ، طلال چوہدری، دانیال عزیز سمیت دیگر حکومتی ترجمان اپنے تند وتیزبیانات میں براہ راست فوج کا نام لینے کے بجائے ’’کٹھ پتلی‘‘، ’’طیارہ سازش کیس‘‘ جیسی اصلاحات استعمال کرکے فوج کو اپنے خلاف سازش کا ذمے دار قرار دے رہے ہیں اور اس حوالے سے میڈیا کے ایک حصے میں بھی ایسی رپورٹس اور خبریں شائع کرائی جا رہی ہیں جن میں فوج اوراس کی خفیہ ایجنسیوں کو ’’پاناماکیس‘‘ کے ذریعے حکومت کے خلاف سازش کا ذمے دار ثابت کرنے کا تاثر دیا جارہا ہے۔

تاہم حکومت کی تمام ترکوشش کے باوجود عوام ’’پروپیگنڈا‘‘کا شکار نہیں ہو رہے کیونکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ہمیشہ جمہوریت کو مقدم رکھااور ان کے پیش رو سابق آرمی چیف جنرل(ر) راحیل شریف نے بھی جمہوریت کے تسلسل کو جاری رکھنے کیلیے ہر ممکن اقدامات کیے تھے حالانکہ دونوں فوجی سربراہوں کو حکومت کو رخصت کر نے کے متعدد مواقع اور جواز ملے تھے۔ دھرنا، نیوزلیکس ہو یاکلبھوشن یادیوکامعاملہ، ہر دفعہ پاک افواج نے انتہائی کشیدگی کے باوجود غیر آئینی اقدام کا آپشن مسترد کیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ مکمل طور پر میاں نواز شریف کا انتخاب تھے، جنر ل باجوہ نے بھی ہمیشہ جمہوریت اور آئین پاکستان کو مقدم رکھا ہے۔ پاکستان کی70 سالہ تاریخ میں فوج نے کبھی اپنے موقف سے پسپائی اختیار نہیں کی ہے لیکن جمہوریت کی برتری کو قائم رکھنے کیلیے نیوز لیکس کے معاملے پر اپنی ٹویٹ واپس لیکر جنرل باجوہ کی قیادت میں افواج پاکستان نے ثابت کیا کہ وہ آئین پاکستان اور جمہوریت کو سب سے مقدم سمجھتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ حکومتی حلقے آج اشاروں کی زبان میں جو الزامات جنرل باجوہ پر عائد کر رہے ہیں، انہی الزامات کو اسی حکومت نے جنرل راحیل شریف کیخلاف بھی استعمال کیا تھا۔

جنرل راحیل کے خلاف میڈیا کے بعض حلقوں کو استعمال کر کے ان کا میڈیا ٹرائل کیا گیا اور آج حکومت اسی جنرل راحیل شریف کی تعریفیں کرتی ہے۔ موجودہ صورتحال میں حکومتی حلقوں کی جانب سے فوج کو نشانہ بنانا کسی صورت درست نہیں ہے ۔آئین پاکستان کے تحت فوج سمیت ہر ادارہ سپریم کورٹ کی معاونت کا پابند ہے۔ایسے میں جے آئی ٹی کی رپورٹس اور اقدامات کو فوجی ایجنسیوں سے منسوب کر کے سازش کا تاثر دیناحکومت کیلیے نقصان دہ ہوگا۔ پاکستان کے معروف اور مستند آئینی ماہرین یہ