قومی دفاع

بنانا ریاست یا ایٹمی ریاست۔۔۔۔اسداللہ غالب

جس ملک میں ایک زور آور چیف منسٹر کے ہوتے ہوئے پرائیویٹ اسکول چھٹیوں کے لئے تیار نہ ہو ں اور طلبہ کو گرمی کی بھینٹ چڑھانے پر اڑے رہیں، اس ملک میں سنگین معاملات کے سلسلے میں رٹ کا اندازہ کرنامشکل نہیں۔
ویسے یہ حکومت اگر چاہے تو اس کا ایک تھانیدار اپنے علاقے کی ساری مسجدوں کے فالتو لاؤڈ اسپیکر اتروا سکتا ہے اور درود پاک اور خطبہ جمعہ کی آواز بند کرا سکتا ہے۔لیکن یہی تھانیدار نہ چاہے تو ڈی جے بٹ کا شور شرابہ جلسوں میں جناتی لاؤڈ اسپیکروں پر گونج سکتا ہے۔
ملک میں اگر کسی کی رٹ نظرآ رہی ہے تو یہ امریکہ کی ہے، سی آئی اے کے ایک سربراہ نے کہا تھا کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں چھپاہو اہے ، جس دن ہم نے اس کا سراغ لگا لیا،اسے نشانہ بنا کر چھوڑیں گے اور ایبٹ آباد میں امریکہ نے اسے نشانہ بنانے کا دعوی بھی کیا، میں ا س مداخلت کا سلالہ یا درگئی چوکی پر امریکیوں کی یلغار سے موازنہ نہیں کرتا۔کیونکہ حالت جنگ میں ا س نوع کے تجاوزات معمول کا حصہ سمجھے جاتے ہیں لیکن ایبٹ آباد نہ فاٹا میں تھا، نہ ڈیورنڈ لائن پر جہاں امریکی کسی غلطی سے در آئے تھے، ویسے تو امریکیوں نے ڈرون حملے پاکستان میں ایک عرصے سے شروع کر رکھے ہیں اور یہ بھی ملک کی خود مختاری کا منہ چڑا رہے ہیں، سابق ائر چیف کہتے رہے کہ ہم امریکی ڈرون مار گرا سکتے ہیں ، مگرا سکے لئے حکومت ہمیں حکم دے، مجھے نہیں معلوم جب ممبئی سانحے کے بعد بھارتی جہازوں نے سرجیکل اسٹرائیک کے لئے پروازیں کیں تو ان کے جواب میں ہمارے ہو ابازوں نے فضا میں بلند ہونے سے قبل کسی حکومت سے کوئی اجازت حاصل کی تھی یا نہیں۔
میں نے اپنی ایٹمی قوت کو پہلی بار اس وقت بے بس دیکھا جب ہم نے کارگل میں مہم جوئی کی۔ لائن آف کنٹرول کے پار بھارتی طیارے ہمارے کمانڈوز کو مکھیوں کی طرح بھون رہے تھے، اگر ہم سمجھتے تھے کہ کشمیر متنازع علاقہ ہے تو پھر ہماری احتیاط پسندی کا جواز کیا تھا اور اگر ہم ایٹمی جنگ سے اس قدر ہی خوف زدہ ہیں تو ان پر پیسہ لٹانے کا جواز کیا تھا، منطق کیا تھی، توجیہہ کیا تھی،چودھری شجاعت کے اس سوال کا جواب بھی کسی نے نہیں دیا کہ کیا ہم نے ایٹمی اسلحہ شادی بیاہ پر پٹاخے چلانے کے لئے جمع کر چھوڑا ہے۔
امریکہ نے ایبٹ آباد میں ہمارے اقتدار اعلی کو روند کر رکھ دیا۔اب ملا اختر منصور کو شہید کرنے کے لئے ایک بار پھر امریکہ نے ہماری خودمختاری کا تمسخر اڑایا ہے۔تمسخر شاید چھوٹا لفظ ہے،ا س نے ہمارے ا قتدار اعلی کو انتہائی نخوت سے ٹھوکر ماری ہے۔امریکی صدر ہمارے صبر کا مزید امتحان لینے کے لیئے دھمکی دے رہے ہیں کہ جہاں کہیں سے امریکی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوا تو ہم وہاں بلا جھجک کاروائی کریں گے۔ امریکہ کے لئے کسی دوسرے ملک کی آزادی، سلامتی،اقتدار اعلی کی کوئی حقیقت نہیں، وہ دنیا کے کونے کونے میں پھنکار رہا ہے ، مگر پاکستان تو ایک ایٹمی طاقت ہے، اور ہم وارآن ٹیر ر میں اس کے دست بستہ حلیف ہیں۔پھر بھی ہم سے یہ سلوک۔ کیا ہم ا سکے کمی کمین ہیں۔ کیا ہم بے دست و پا ہیں،کیا ہم عراق سے گئے گزرے ہیں جو امریکہ سے لڑ بھڑ گیا، کیا ہم افغانستان سے بھی گئے گزرے ہیں جس نے ایک بار سوویت روس کو للکاراا ور اب چودہ برس سے امریکی اور نیٹو افواج سے بر سر پیکار ہے۔کیا ہم نے شیر میسور کا یہ قول ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی ، گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے۔اگر یہ قول نسیم حجازی کے کسی ناول کا ہے تو کیا ہم نے چرچل کا یہ قول بھی نہیں سناکہ میں اپنی قوم کو لڑنے کا نہیں مرنے کا حکم دیتا ہوں۔یہ قول بھی نسیم حجازی کے کسی ناول سے نقل نہیں کر رہا، یہ بھی چرچل کا قول ہے،ا سنے کہا تھا، ہم ہار نہیں مانیں گے، ہار نہیں مانیں گے ، کسی صورت ہار نہیں مانیں گے۔
نسیم حجازی کو نہ مانو لیکن چرچل کا تو مانو، اس نے کہا تھا ، ہم ساحل سمند پر لڑیں گے، ہم فضاؤں میں لڑیں گے، ہم گلیوں میں لڑیں گے،ہم کھیتوں میں لڑیں گے،ہم پہاڑوں میں لڑیں گے،ہم دریاؤں ا ور سمندروں میں لڑیں گے اور خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے۔
چرچل نے یہ الفاظ ایک باغیرت قوم کے سامنے کہے تھے۔
اور میری قوم بحث یہ کرر ہی ہے کہ کیا ملا اختر منصور مارا گیا یا نہیں۔یااس نکتے کوکھنگال رہے ہیں کہ ملا منصور ایران سے کس راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔میری قوم کی بحثیں پھر بھی یہی ہوتیں اگر ملا منصور بھاٹی یا ٹکسالی یا موچی دروازے کے کسی گنجان محلے میں چھپا ہوتا اور ڈرون میزائل یہاں آن گرتا تو بھی ہم گنگ محل بنے رہتے اور ایک ملا منصور کی لاش کے ساتھ ہزاروں اپنے پیاروں کی موت پر بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رہتے۔شکر کریں ملا منصور یا ا س سے پہلے اسامہ یا اس سے پہلے ملا عمر نے اندرون لاہور کو پناہ گاہ نہیں بنایا۔ امریکی حکومت کے وزیر خارجہ جان کیری کہتے ہیں کہ ہم نے ڈرون حملے کی اطلاع پاکستان کو پیشگی دی، ہمارے وزیر اعظم کہتے ہیں کہ بعد میں دی، جب بھی دی، ہم نے کیا جواب دیا۔ کیا صرف امریکی سفارت کار کے سامنے لفظی احتجاج۔وزیر اعظم پانچ روز کے لئیے برطانیہ میں ہیں اور پیچھے امریکہ کو کھل کھیلنے کی مکمل آزادی ہے۔
عمران خان کہاں ہیں جو ڈرون حملوں کے خلاف جلوس نکالتے نہیں تھکتے تھے۔وہ نواز شریف سے استعفے مانگ رہے ہیں یا انہیں جیل میں ٹھونسنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں مگر اس امریکہ کو کس نے نتھ ڈالنی ہے،ا س کی کسی کو ہوش نہیں۔جب تک عمران خان کی پارٹی کو اقتدار نہیں ملا تھا ، اسے ڈرون حملے برے لگتے تھے، غیرت مند قبائل کے لئے چیلنج لگتے تھے ، اور جب اسے اقتدار مل گیا، اس پارٹی کوکوئی ہوش نہیں کہ اس کی ناک کے نیچے کیا ہو رہا ہے، امریکہ تو خیر سپر طاقت ہے مگر افغانستان کی غلام امریکی حکومت بھی ہمیں آنکھیں دکھاتی ہے ا ور خیبر کی سرحد کھلوا کر دم لیتی ہے۔ ہم نے صرف خیبر کی سرحد ہی نہیں کھولی، انگور اڈہ بھی افغان حکومت کو دان کر دیا۔ایک زمانے میں ہم نے کشمیر کا بڑا حصہ چین کو سونے کی طشتری میں رکھ کر پیش کر دیا تھا، آدھا ملک ہم نے جنرل اروڑہ کی فوج کے سامنے ہار دیا۔
میں آرمی چیف سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ مایوسی میں ڈوبی ہوئی قوم کو دلاسہ دیں اورا سے باور کرائیں کہ ان کی سلامتی،آزادی، اور اقتدارا علی کو کوئی گزند نہیں پہنچنے دیا جائے گا۔
ہماری یہ حالت کیوں ہو گئی ، کہ مار پہ مار کھائے چلے جاتے ہیں امگر منہ سے یہی کہتے ہیں لانا میری قرولی !!!
کیا مجھے اجازت ہے کہ میں بانی پاکستان کا یہ قول اس قوم کو یاد کراؤں کہ ہم پہاڑوں میں لڑیں گے۔ میدانوں میں لڑیں گے اوراس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک دشمن ہمیں اٹھا کر بحیرہ عرب میں نہیں پھینک دیتا۔