منتخب کردہ کالم

آئینہ دیکھ لیں…رئوف طاہر

آئینہ دیکھ لیں

آئینہ دیکھ لیں…رئوف طاہر

ایک طرف بات ”بے بی بلاول‘‘ سے ”بڈھا نیازی‘‘ تک پہنچ گئی ہے (گزشتہ روز کراچی میں کارکنوں سے خطاب میں عمران خان نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین کو ”بے بی بلاول‘‘ کہہ کر مخاطب کیا تو سندھ اسمبلی کی جیالی ڈپٹی سپیکر نے جواب آں غزل میں تاخیر نہ کی۔ شہلا رضا کا کہنا تھا‘ زبان سنبھال کر بات کرو۔ تم ”بے بی بلاول‘‘ کہو گے تو ہم تمہیں ”بڈھا نیازی‘‘ کہیں گے) تو دوسری طرف قومی اسمبلی کے جہاندیدہ اور سردوگرم چشیدہ قائد حزب اختلاف کا کہنا ہے‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف مل کر الیکشن لڑ سکتے ہیں۔ سید خورشید شاہ کا دعویٰ بے دلیل نہ تھا۔ فرمایا‘ خان صاحب پیپلز پارٹی کو سپورٹ کر رہے ہیں‘ سینیٹ میں ہمارے امیدواروں کو ووٹ دیا‘ شریف آدمی اور کیا کرے؟ ادھر خان کہہ رہے تھے‘ زرداری سے اتحاد کرنا پڑا تو شیشے میں اپنی شکل کیسے دیکھوں گا؟ جواباً عرض کیا جا سکتا ہے‘ اس میں کیا مشکل ہے؟ ڈپٹی چیئرمین شپ کے لیے زرداری کے امیدوار سلیم مانڈوی والا کو پی ٹی آئی کے ووٹوں سے جتوانے کے بعد کیا آپ نے شیشے میں اپنی شکل دیکھنا چھوڑ دی ہے؟ حالانکہ انتخاب سے ایک دن پہلے آپ فرما رہے تھے کہ پیپلز پارٹی کو سپورٹ کرنے کا مطلب ہو گا کہ آپ نے کرپشن کے خلاف اپنی بائیس سالہ جدوجہد پر پانی پھیر دیا‘ اسے زیرو کر دیا…اپنے 13 سینیٹرز بلوچستان کے ”آزاد‘‘ وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی جھولی میں ڈالتے ہوئے آپ نے فرمایا تھا کہ آپ چاہتے ہیں‘ چیئرمین بلوچستان سے اور ڈپٹی چیئرمین فاٹا سے آئے (تاکہ ان دونوں پسماندہ علاقوں کا احساس محرومی ختم ہو) لیکن زرداری صاحب کے امیدوار مانڈوی والا کا تعلق تو فاٹا سے نہ تھا‘ پھر آپ کے سینیٹرز نے (ظاہر ہے‘ آپ ہی کے حکم پر) اسے ووٹ کیوں دیئے؟…اور ہاں یاد آیا‘ سینیٹ کے ارکان کے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے خیبرپختونخوا میں آپ کی پارلیمانی پارٹی میں نقب لگا کر اپنے دو سینیٹر منتخب کرا لئے تھے‘ جس پر آپ پھٹ پڑے اور کہا تھا‘ ووٹ بیچنے والے آپ کے ارکانِ اسمبلی تادیبی کارروائی سے نہیں بچ سکیں گے اور پھر آپ نے چُپ سادھ لی۔ اور دلچسپ بات یہ کہ اس سے ملتی جلتی سیاسی واردات جناب زرداری نے سندھ میں ایم کیو ایم کے ساتھ کی تھی‘ لیکن وہ بھی اپنے رستے زخموں کے ساتھ زرداری صاحب کے کیمپ میں چلی گئی۔ اسی باعث بعض ستم ظریفوں کو یہ شوشہ چھوڑنے کا موقع مل گیا کہ ع
کون معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں؟
خان صاحب! آئندہ عام انتخابات میں (بعض بدایشوں کے خدشات کے برعکس اگر آئینی تقاضوں کے مطابق یہ اس سال جولائی میں ہو گئے) پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد (یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ) کی صورت میں آپ کو شیشے میں اپنا چہرہ دیکھنا‘ اس لیے دشوار نہیں ہو گا کہ اس سے پہلے بھی کئی بار آپ اس آزمائش سے گزر چکے ہیں۔
1996ء کی پہلی سہ ماہی میں آپ نے تحریک انصاف کی بنیاد اس دعوے کے ساتھ رکھی کہ بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی اور نوازشریف کی مسلم لیگ میں کوئی فرق نہیں‘ دونوں یکساں کرپٹ ہیں اور یہ کہ آپ ملک کو ایک نئی صاف ستھری اور نوجوان قیادت مہیا کریں گے۔
14 ستمبر 1999 ء کو اسلام آباد میں جنم لینے والے 19 جماعتی گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس میں آپ کی تحریک انصاف بھی پیپلز پارٹی کے پہلو میں موجود تھی۔ یہ وہ دور تھا‘ جب وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل مشرف کے تعلقات میں کشیدگی اندھوں کو بھی نظر آ رہی تھی اور یہ بات عام تھی کہ ”نواز ہٹائو‘‘ کے ون پوائنٹ پر یہ اتحاد اوپر والوں کے اشارے سے وجود میں آیا ہے۔ چار روز بعد (18 ستمبر کو) جنرل اسلم بیگ کا کہنا تھا‘ امریکہ نے نوازشریف کو ہٹانے کا سگنل دیدیا ہے۔ جبکہ بزرگ سیاستدان سردار شیرباز مزاری کہہ رہے تھے‘ سیاست میں گندگی کی بھرمار ہے‘ میں سیاست سے ریٹائر ہو گیا ہوں‘ لوگ کہتے ہیں‘ اچھا کیا سیاست چھوڑ دی…
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں اپنا ہدف حاصل کر لیا۔ 12 اکتوبر کو نوازشریف حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ جمہوریت مآب نوابزادہ صاحب سمیت جی ڈی اے کی ساری قیادت اس کا خیرمقدم کر رہی تھی۔ بے نظیر بھٹو جسٹس عبدالقیوم والے احتساب ٹربیونل کے فیصلے سے قبل ہی خودساختہ جلاوطنی اختیار کر چکی تھیں۔ نوازشریف حکومت کے خلاف فوجی کارروائی پر (بی بی سی سے انٹرویو میں) ان کا کہنا تھا‘ پوری قوم جنرل مشرف کے اقدام پر خوش ہے۔ میں محب وطن ہوں‘ پاکستان کو بچانا چاہتی ہوں اور بحران کے اس عالم میں اہم کردار ادا کر سکتی ہوں۔ جنرل مشرف مجھ سے بات کریں۔ (پروفیسر غفور احمد مرحوم نے اپنی کتاب ”نوازشریف اقتدار سے عتاب تک‘‘ میں لکھا یہ بیانات دینے کے بعد بے نظیر نے فوجی قیادت سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود فوجی قیادت سے ان کا رابطہ نہ ہو سکا۔)
”نواز ہٹائو‘‘ کے ون پوائنٹ ایجنڈے کی تکمیل کے ساتھ جی ڈی اے بھی اپنے انجام کو پہنچا۔ اب نئی سیاست تھی۔ عمران خان اور طاہر القادری میں پرویز مشرف کی قربت اور خوشنودی کے حصول کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ نومبر 2000 ء میں جنرل مشرف کے خلاف پہلا سیاسی اتحاد اے آر ڈی وجود میں آیا تو عمران خان نے اسے ”چوروں کا اتحاد‘‘ قرار دیا‘ حالانکہ ”نوازشریف ہٹائو‘‘ مہم میں (نون لیگ کے سوا) وہ انہی چوروں کے ساتھ موجود تھے۔
مشرف کی ریفرنڈم مہم (اپریل 2002ء) میں تحریک انصاف اور طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کے مابین مقابلہ ہوا کہ کس کے پرچم زیادہ ہیں اور کس کے نعروں کی گونج دوسرے سے بڑھ کر ہے۔
مشرف نے اپنی قاف لیگ بنا کر اسے اقتدار کے حرم سرا میں باندی بنا لیا تو خان اور علامہ کی مایوسی فطری تھی۔ موخر الذکر نے سیاست پر چار حرف بھیج کر ”عالم گیر اسلامی انقلاب‘‘ کے لیے کینیڈا کی شہریت اختیار کر لی اور خان نے اپوزیشن سے لو لگا لی‘ اے آر ڈی کے قیام پر جنہیں وہ ”چوروں کا ٹولہ‘‘ قرار دے چکا تھا۔ نوازشریف نے جولائی 2007 ء میں لندن میں آل پارٹیز کانفرنس بلائی تو خان بھاگم بھاگ پہنچا (ڈکٹیٹر کے ساتھ اپنے این آر او کی تیاری کے باعث بے نظیر صاحبہ لندن میں ہوتے ہوئے بھی خود اس میں شریک نہ ہوئیں اور پیپلز پارٹی کے وفد کی قیادت مخدوم امین فہیم نے کی) ڈکٹیٹر کے خلاف فیصلہ کن اقدام کے لیے اگلے روز آل پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا قیام عمل میں آیا‘ تو پیپلز پارٹی اس میں شامل نہ تھی البتہ خان کو یہ کہنے میں کوئی عار نہ تھی کہ انہیں ”نوازشریف کے نمبر دو‘‘ کی حیثیت سے بھی کام کر کے خوشی ہو گی۔
بات خان کے سیاسی تضادات کی ہو رہی تھی۔ تحریک انصاف کا قیام ابن الوقت سیاستدانوں اور موروثی چہروں سے نجات اور نوجوان قیادت کے ساتھ تبدیلی کے نعروں سے ہوا تھا اور آج خان کے گرد وہی سیاستدان اور وہی چہرے ہیں جن کے خلاف تبدیلی کے نعرے کے ساتھ وہ میدان میں آیا تھا۔
اس نے مئی 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا‘ اور پھر 12 مارچ 2014ء کو وزیراعظم نوازشریف کو بنی گالہ میں شام کی چائے پر مدعو بھی کر لیا۔ وہ پیپلز پارٹی کو (مسلم لیگ نون کی طرح) کرپٹ افراد کا ٹولہ قرار دیتا ہے لیکن انہی کرپٹ افراد میں سے بلاول ہائوس سے بنی گالہ آنے والوں کا خیرمقدم کرتا ہے۔ وہ نوازشریف کو سپریم کورٹ سے سرٹیفائیڈ کرپٹ کہتا ہے‘ لیکن اسی سپریم کورٹ کی طرف سے جہانگیر ترین کی نااہلی کے باوجود اسے پہلو میں بٹھاتا اور سینے سے لگاتا ہے۔
اور زرداری کے سلیم مانڈوی والا کو ڈپٹی چیئرمین سینٹ بنوانا تو ابھی کل کی بات ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود خان کو شیشے میں اپنی شکل دیکھتے ہوئے کوئی الجھن نہیں ہوتی تو کل نواز شریف کا راستہ روکنے کے لیے پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد (یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ) کرنے کی صورت میں شیشے میں شکل دیکھنے میں کیا مسئلہ ہو گا؟