آئین نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اَڑنا …(2)…نسیم احمد باجوہ
جب اقبال نے یہ لکھا (تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی) تو ان کے ذہن میں تقلید کے لفظ کا سیاق و سباق مذہبی (Theological) تھا۔ وہ اجتہاد کو اسلام کی روح (وقت گزرنے کے ساتھ حالات میں تبدیلیوں کی قبولیت) سمجھتے تھے۔ مگر مجھے یہ لکھنے کی اجازت دیجئے کہ ہم زندگی کے ہر پہلو میں اندھا دھند تقلید اور لکیر کے فقیر بنے رہنے کو مسترد کر دیں تو اسی میں ہماری بھلائی ہے۔ سیاسی نظام کو زندہ و تابندہ رکھنے کے لئے بھی اجتہاد اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ مذہبی معاملات میں۔ کالم نگار کی عمر بھر کے مطالعہ کا نچوڑ یہ ہے کہ (بقول اقبال) زندہ قوموں کی نشانی یہ ہے کہ :
؎ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
اس کے برعکس غلامانہ ذہن رکھنے والی قومیں سکوت و جمہود کا شکار ہوتی ہیں۔ ذہنی طور پر مفلوج۔ حالات کے مطابق اپنے بندوبست میں تبدیلی لانے کی صلاحیت کا تعطل‘ مستقل تعطل۔ اگر غلامانہ ذہن رکھنے والی قوم مسلمان ہو (جیسا کہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے) تو پھر بقول اقبال:
؎ خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
اقبال نے اپنے تیسرے مجموعہ کلام (ضرب کلیم) کی نظم نمبر169 کا نام رکھا۔ نفسیات غلامی اور اگلی نظم کا عنوان ”غلاموں کی نماز‘‘ مگر میری نظر میں نظم نمبر91 (ہندی مکتب) مذکورہ بالا دونوں مختصر نظموں سے بڑھ کر کمال کی ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ میرے قارئین چند منٹ نکال کر ان تین نظموں کو پڑھ لیں تاکہ انہیں میرا یہ موقف سمجھ آجائے کہ ہمارا جمود‘ہماری تقلید کی روش‘ ہماری انگریز کی چھوڑی ہوئی میراث کو مقدس سمجھ کر اسے جوں کا توں قبول کرنا اور دور حاضر کے تقاضوں سے چشم پوشی‘ ہمارے سارے دکھوں کی ذمہ دار ہے۔ آئین کہتا ہے کہ پندرہ سال کے اندر (1985 تک) اُردو کو سرکاری زبان بنایا جائے۔ 2018 ء آیا اور آدھا گزر گیا۔ پندرہ سال کی پابندی گزرے 33 سال گزر گئے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب کے تاریخی فیصلے پر بھی گرد کی کئی تہیں جم گئیں۔ میری دوست فاطمہ قمر اور ان کے ساتھیوں کی فریاد کرتے کرتے آواز بیٹھ‘ گئی مگر کیا مجال کہ روایتی گل محمد اپنی جگہ سے ہل جائے اور انگریزی زبان کا سرکاری استعمال بند کر کے ساری لکھائی پڑھائی اُردو میں کرنا شروع کر دے۔
ہمارے ہاں پارلیمانی نظام اس لیے جاری و ساری ہے اور ہمارا اس کے بارے میں عقیدہ اتنا راسخ ہے کہ یہ ہمارے پرانے آقائوں (برطانوی راج) کی باقیات کا ایک اہم حصہ ہے۔ نہ ہم فرانس کو دیکھتے ہیں اور نہ اپنے ہمسایہ ملک چین کو اور نہ اپنے دوست ترکی کو۔ ان کی ترقی اور استحکام کی ایک بڑی وجہ اُن کا سیاسی نظام (صدارتی) ہے۔ اب آپ ایک اور پہلو بھی دیکھیں۔ پارلیمانی نظام کو کامیابی سے چلانے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کو فضل الٰہی چوہدری اور نواز شریف کو پہلے محمد رفیق تارڑ اور آخر میں ممنون حسین کی ضرورت ہوتی ہے۔ صدارتی عہدہ کے لئے ھمااس شخص کے سرپر بٹھایا جاتا ہے جس کے بارے میں یہ ضمانت دی جا سکے کہ وہ مٹی کا مادھو ہے۔ وہ نہ سوچ سکتا ہے اور اگر سوچنے کا مرحلہ (بلکہ معجزہ) طے پا جائے تو بول نہیں سکتا۔صرف مقررہ جگہ پر انگوٹھا لگانے کا ہنر جانتا ہو اور ہر وقت اپنے باس (وزیراعظم) کی اندھا دھند اطاعت میں اپنا سر ہلانے کا ماہر ہو۔جب مذکورہ بالا خوبیوں کا مالک صدر مملکت بن جائے تو پھر اس کی تنخواہ اس کے صدارتی ایوان‘ اس کے عملہ کی تنخواہوں اور اس کے پروٹوکول پر ہر ماہ تقریباً بیس کروڑ روپے خرچ کئے جا سکتے ہیں۔
اب اور آگے چلیں۔ گورنر کے عہدہ پر غور فرمائیں۔ہر ماہ کروڑوں کے اخراجات اور کام صفر۔ یہی وجہ ہے کہ جب شریف برادران اپنے ایک محسن (چوہدری محمد سرور) کو اس کے احسانات کا بدلہ چکانے کے لئے برطانیہ سے پاکستان لے آئے تو انہیںپنجاب کا گورنر بنا دیا‘ مگر انہیں بہت جلد پتہ چل گیا (ستم ظریفی یہ کہ وہ یہی عہدہ دوبارہ قبول کرنے والے ہیں) ‘کہ وہ سراسر قومی خزانے پر بوجھ ہیں اور کسی قسم کا کام نہیں کر سکتے۔ نہ اچھا‘ نہ برا۔ تو وہ اپنے ضمیر کی آوازسن کر وہاں سے بہت جلد مستعفی ہو گئے۔ میرے تین دوست یکے بعد دیگرے پنجاب کے گورنر بنے۔ چوہدری الطاف حسین مرحوم‘ میاں محمد اظہر (میرے ہم جماعت میاں محمد اشرف کے بھائی) اور جناب شاہد حامد۔ میں ان کا شکر گزار ہوں کہ میں جب بھی لندن سے لاہور گیا (جو میں اکثر جاتا ہوں) اور انہیں اپنی آمد کی اطلاع دی تو انہوں نے ہمیشہ بکمال محبت گورنر ہائوس بلایا اور بہت اچھی کافی پلائی‘ مگر میں یہ دیکھے بغیر نہ رہ سکا کہ ان کا ملاقاتیوں کا کمرہ ایسے لوگوں سے بھرا ہوتا تھا جو اپنا رکا ہوا کام (ہمارے ملک میں ہر کام رکا ہوا ہوتا ہے) نکلوانے کے لئے ‘لاٹ صاحب‘ کی سفارش کے طلبگار ہوتے تھے۔ جب انہیں یہ پتہ چلتا تھا کہ مجھے گورنر صاحب سے کوئی کام نہیں اور میں صرف اچھی کافی پینے اور بہترین سینڈ وچ (جس کا بل پاکستان کے محنت کش عوام ادا کرتے ہیں) کھانے آیا ہوںتو وہ بڑے حیران ہوتے تھے اور بڑی بے تکلفی سے میرے میزبان بن جانے کی فیاضانہ پیشکش کرتے تھے۔ یقینا اس امید پر کہ میں آگے چل کر ان کی گورنرصاحب سے سفارش کر سکوں گا۔ اگر اہل پاکستان پارلیمانی نظام کو اس لئے دل و جان سے پسند کرتے ہیں کہ یہی نظام برطانیہ میں رائج ہے تو میں ان سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں کہ آخر ہم نے انگریز کے بنائے ہوئے چار صوبوں میں چار گورنروں کی صورت میں چار سفید ہاتھی کیوں پالے ہوئے ہیں‘ جبکہ برطانیہ اور یورپ کے کسی ملک میں اس قسم کے عہدہ کا نام و نشان نہیں۔ یقینا آپ جانتے ہوں گے کہ امریکہ کی ہر ریاست کا گورنر امریکہ کا صدر مقرر نہیں کرتا بلکہ وہ اس ریاست کے تمام شہریوں کے ووٹوں سے چنا جاتا ہے۔ ریاست کی اسمبلی کے اراکین اس ریاست کے باشندوں کے ووٹوں سے چنے جاتے ہیں۔ گورنر انتظامیہ کا سربراہ ہوتا ہے اور اسمبلی صرف اور صرف قانون سازی کرتی ہے۔ اگر آپ برطانیہ کا سب سے معزز اور معتبر اخبار (گارڈین) کی سات اگست کی اشاعت انٹر نٹ پر پڑھ سکتے ہیں تو اس میں Simon Tisdall کا لکھا ہوا وہ فکر انگیز ‘ چشم کشا اور بصیرت افروز مضمون ضرو ر پڑھیں ‘جس کا عنوان ہے:
“America Needs to Get a Grip on its Democracy for all our Sakes.”
اس مضمون کی آخری سطور کا ترجمہ یوں ہے: ”کئی دہائیوں سے ہم آنکھیں بند کر کے اس خوش فہمی میں رہے کہ امریکہ میں جمہوری نظام حسب معمول اچھی طرح چل رہا ہے۔حالانکہ وہ دیمک زدہ۔ اندر سے کھوکھلا اور عوام دشمن بن چکا ہے۔ وہ انقلابی اصلاحات درکار ہیں جو امریکہ کو شراکتی جمہوریت کی طرف لے جائیں۔ یہ اہل امریکہ کے لیے ایک بڑا لمحۂ فکریہ ہے۔ غالباً امریکہ کی پیدائش کے 231 سال بعد فلا ڈلفیا میں ایک اور اجلاس کی ضرورت ہے تاکہ ایک نیا معاہدہ عمرانی مرتب کیا جا سکے‘‘۔ یہ تھے ایک زندہ قوم کے روشن دماغ دانشور کے خیالات ۔اس کالم کی دوسری قسط اقبال کے اس شعر پر ختم کی جاتی ہے جس کا ایک مصرع دوکالموں کا عنوان بنا۔ یہ شعر کئی بار پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ ایک بار پھر دہرانے کی اجازت دیجئے:
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے‘ قوموں کی زندگی میں