آج آنکھیں کھولی ہیں….نذیر ناجی
کون سوچ سکتا تھا کہ لاہور میں پانی بیچا جائے گا؟ مجھے تو شک ہے کہ ایسے لوگ جو بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ رابطے بڑھانے میں مصروف ہیں‘ وہ مستقبل قریب میں شاید بھارت کو‘ دنیا کی سب سے زیادہ دولت سے مالا مال کر دیں گے۔ بھارت کے سرمایہ کاروں نے مدت سے پاکستان پر نظر جما رکھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے آزادی کے چند ہی برسوں بعد‘ ہمارے دریائوں پر آنکھ رکھ لی۔ جب میں چھوٹا تھا تو اخباروں میں خبریں پڑھا کرتا کہ پاکستان کے بھارت کے ساتھ پانی کے معاملے پر مذاکرات ہو رہے ہیں۔ دلی اور واشنگٹن سے بڑے بڑے وفود آیا کرتے۔ کبھی کبھی ہمارے ماہرین بھی بھارت سے مذاکرات کرتے۔ میں اس وقت حیران ہوا کرتا تھا کہ پانی بھی اتنا بڑا مسئلہ ہے؟ ہمارے اور بڑی طاقتوں کے نمائندے عرصے تک مذاکرات کرتے رہتے۔ ہر مشترکہ اجلاس کے بعد خبر یہ آتی کہ پانی کے مسئلے پر مذاکرات میں امید افزا پیش رفت ہو رہی ہے۔ تب مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ پیش رفت کیا ہے؟ ہمارے ہاں تو برسات کے موسم میں سارے دریا‘ کناروں سے اچھل کر دیہات اور شہروں کی طرف رخ کرتے اور ہم یہ سمجھتے تھے کہ دریائے سندھ کے سوا ہمیں کسی بھی طرف سے پانی کی رکاوٹ نہیں پڑے گی۔ بھارت کے پاس اتنے دریا اور برساتی پانیوں کے ایسے تھپیڑے ہیں کہ وہ برسات کے موسم میں پانی محفوظ کرتا اور سیلابی پانی چھوڑ کر ہمیں مصیبتوں میں ڈال دیتا۔ بھارت کے ساتھ پانی کے معاہدے آگے بڑھتے رہے اور ہماری طرف طغیانیوں کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا لیکن ہمارے لیڈروں نے پھر بھی نہ سوچا کہ یہ پانی جو بھارت سے گزر کے آتا ہے‘ کسی دن اس کی فوجوں کی طرح‘ ہم پر حملے بھی کر دے گا؟
ہمارے ہاں سقے کو بہشتی کہا جاتا تھا‘ ان بیچاروں کی طاقت‘ وقت کے ساتھ ساتھ جواب دیتی گئی۔ قدرت نے ہماری سرزمین کو پانی فراہم کرنے کا بہترین انتظام کر رکھا تھا۔ وہ انتظام آج بھی موجود ہے۔ قدرت کی طرف سے ہمارے حصے کا جو پانی دریائوں اور سیلابوں کی صورت میں مہیا ہوا کرتا تھا‘ صرف ستر سال کے عرصے میں آج یہ حالت ہے کہ جو بہشتی اپنے کندھوں پر پانی کی مشک لاد کر‘ گائوں اور دیہات میں عام لوگوں کی پیاس بجھایا کرتا اور جو خواتین گھریلو کپڑے دھویا کرتی تھیں‘ انہیں بے شمار وسائل میسر تھے۔ بارشوں میں نچلی زمین پر اوپر سے جو پانی بہہ کر آ جاتا‘ وہ کئی کئی روز تک جا بجا موجود رہتا۔ محنت کش گھرانوں کی خواتین اور ان کے بچے جوہڑوں کے کناروں پر بڑے پتھر رکھ کے کپڑے دھو لیتے۔ بارشوں کی یہ پھواریں اور جوہڑوں میں جمع ہونے والا پانی ضرورت مندوں کو فراہم ہو جاتا۔ برسات کا یہ موسم اپنے ساتھ نہ صرف بارشوں اور پھواروں کا پانی لاتا بلکہ جب بارش تیزی سے ہوتی تو امیر غریب کا فرق مٹ جاتا۔ بارش میں شاید ہی کوئی بے ذوق شخص ہو جو اس نعمت سے محروم رہتا۔ دیہات میں کچھ منچلے موسلا دھار بارشوں میں خوب نہاتے اور شور مچاتی لڑکیاں پورے لباس میں بارشوں کی بوچھاڑوں سے لطف اندوز ہوتیں اور منظروں کو خوش نما بنا دیتیں۔ ہمیں کیا پتہ تھا؟ کہ ہمارا آدم خور‘ پڑوسی حکمران ہمیں قحط اور طغیانیوں میں دھکیل کر زندگی کو دشوار بنا دے گا۔
گزشتہ سال امریکہ میں ایک ریسرچ ہوئی‘ جس میں یہ پیش گوئی موجود تھی کہ آنے والے دور میں قوموں کی قیمتی دھاتوں‘ پانی اور ہوائوں کی طاقت کو‘ سامان جنگ میں بدل دیا جائے گا۔ اب جنگیں بیماریوں‘ زہریلی گیسوں اور تباہ کن ہتھیاروں سے نہیں لڑی جائیں گی۔ آج بھی دنیا میں بہت سے ایسے خطے موجود ہیں‘ جہاں قحط سالی ہے‘ صنعتوں میں زہریلے پانیوں کا استعمال ہوتا ہے‘ کھلے کھیتوں اور میدانوں میں داخل ہو جاتا ہے اور نتیجے میں ہلاکت خیز اثرات چھوڑ جاتا ہے۔ آپ اگر کسی بھی صنعتی شہر کی طرف چلے جائیں تو انسانی زندگی پر صنعتی غلاظتوں کے نتیجے میں بالغوں‘ بچوں اور مویشیوں پر تباہ کن اثرات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ آج ہر پڑھا لکھا انسان
تیزی سے جاگ رہا ہے لیکن اس کی زندگی ہلاکت خیزیوں کی لپیٹ میں آ رہی ہے۔ پاکستان جیسے نیم زرعی اور نیم صنعتی ملکوں میں کئی قسم کی تباہ کاریاں‘ ہر طرح کی آبادیوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔ انسانی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں‘ وہ انسانی صحت پر تیز رفتاری سے حملے کرتے ہیں۔ مکھن‘ کریم‘ چاکلیٹ کی اقسام‘ ریپر میں لپٹی ہوئی مٹھائیاں اور بچوں کی صحت خراب کرنے والی زہرناک اور للچا دینے والی رنگ برنگ گولیاں ہر طرف پھیلائی جا رہی ہیں۔ خصوصاً کچھ عرصہ پہلے گٹکا صاحب بھی تشریف لے آئے‘ جنہوں نے شہروں کے شہر اپنی لپیٹ میں لے لئے۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ پاکستان کے بڑے بڑے صنعت کار‘ ایسی تجارت میں پھنس چکے ہیں‘ جو محض بچوں نہیں بلکہ عام شہریوں کو بھی نگل رہی ہے۔ اب تو حکومتیں بھی گٹکوں پر قابو پانے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ حکومت نے کافی سخت قوانین بنا کر گٹکے پر پابندی لگانے کی کوشش کی‘ لیکن کالے بازار میں گٹکا نہ صرف بے تحاشا پرڈویوس کیا جاتا ہے بلکہ انتہائی دلکش پیکنگ میں عام زندگی کو تباہ کن زہریلے اثرات کی لپیٹ میں بھی لے رہا ہے۔ میں نے ایک وزٹ میں ایسے بازار بھی دیکھے‘ جہاں اعلیٰ ترین ہوٹلوں‘ فیشن ایبل ریسٹورنٹس اور ڈرائینگ رومز میں بطور فیشن گٹکا استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے ایسی ایسی ترکیبوں سے تیار کیا جاتا ہے جو انسانی صحت کو ذرا معاف نہیں کرتیں۔ اچھے بھلے گھرانوں کے شوقین مزاج لڑکے لڑکیاں گٹکا ہر وقت اپنے پرس یا جیب میں رکھتے ہیں۔ میں نے پانی سے بات شروع کی تھی۔ اب تو موبائل فونز پر نوعمر بچے بچیاں اور پختہ عمر کے لوگ‘ گھر کے محفوظ حصوں میں‘ غلیظ اور گمراہ کن ویڈیوز دیکھ کر بصد شوق برباد ہوتے ہیں۔ اور تو اور حرصِ زر نے خاندانی رشتوں کے تقدس کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کسی کو کیا خبر تھی کہ خاندان میں سب کی محبت لینے والے کو‘ بعض ایسی دوائوں سے شکار کر لیا جائے گا‘ جن کے استعمال اور بہترین ڈاکٹروں کی مدد سے‘ اسے ہوش و حواس سے محروم ہونا پڑے گا۔ جتنے عرصے تک رشتوں کا بیوپاری فائدہ اٹھا سکتا ہے‘ اٹھا لیتا ہے۔ نفع خوری کی یہ نئی اصطلاح‘ کاروبار میں متعارف کرا دی گئی ہے۔