آج کا امریکہ چند مشاہدات .. کالم جاوید حفیظ
میں آج ہی لونگ آئی لینڈ نیویارک سے اپنی بیگم کے بھانجے ڈاکٹر رضا اشرف کی شادی اٹینڈ کر کے ورجینیا واپس آیا ہوں۔ یہاں پاکستانی شادیوں میں سُنت نکاح‘ رسم حنا‘ بھنگڑا‘ انڈین اور امریکی گانوں پر رقص سب اکٹھے ہو جاتے ہیں اور خوب رونق لگتی ہے۔ اپنے لوگوں کی تعداد اب خاصی زیادہ ہے اور شادی کے دوران محسوس ہی نہیں ہوا کہ ہم پاکستان سے باہر ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ برطانیہ‘ امریکہ اور کینیڈا میں رہنے والے پاکستانی خاندان اپنے آبائی وطن میں بہو اور داماد تلاش کرتے تھے۔ اب یہ لوگ خودکفیل ہو چکے ہیں۔ نئی پڑھی لکھی نسل ارینجڈ Arranged شادی کو ذہنی طور پر قبول نہیں کر رہی۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ لوگ ذات پات کے چنگل سے نکل کر بچوں کی خواہشات کے مطابق رشتے کر رہے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یہ لوگ پنجابی‘ پٹھان‘ سندھی‘ راجپوت‘ آرائیں اور جاٹ کی چھوٹی چھوٹی اکائیوں سے نکل رہے ہیں اور یہ بہت خوش آئند بات ہے۔
یہاں ایک اچھی بات ٹریفک کا منظم بندوبست ہے۔ سُرخ بتی پر ہر کوئی رُکتا ہے بلکہ سٹاپ سائن کا بھی مکمل احترام ہوتا ہے۔ سٹاپ سائن ہر اُس مقام پر لگے ہوئے ہیں جہاں چھوٹی سٹریٹ بڑی سڑک سے ملتی ہے یا چوراہا سامنے ہے۔ ان مقامات پر چند سیکنڈ کے لیے رُک کر دونوں جانب دیکھنا ضروری ہے۔ اگر کوئی گاڑی نہیں آ رہی تو آپ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اپنی لین Lane بدلتے ہوئے ہر ڈرائیور اشارہ ضرور دیتا ہے ۔کوئی کار میں سے کوکا کولا کا ٹن Tin یا ہمبرگر کا گتے کا ڈبہ سڑک پر نہیں پھینکتا۔ میں شام کو واک کرتے ہوئے جب سڑک کراس کرتا ہوں تو اگر کوئی گاڑی آ رہی ہو تو ڈرائیور فوراً رُک جاتا ہے کہ پیدل جانے والا شخص آرام سے سڑک پار کر لے۔
یہ خوشحال معاشرہ ہے لہٰذا گاڑیاں عمومی طور پر اچھی حالت میں ہیں۔ پھر بھی ہر گاڑی کی دو طرح کی سالانہ انسپیکشن ضروری ہے۔ ایک معائنہ گاڑی کے انجن کا ہوتا ہے کہ صحیح طرح سے پٹرول کا مکمل استعمال کرنے کے قابل ہے کہ نہیں۔ اگر گاڑی دھواں چھوڑ رہی ہو تو مالک پر لازم ہو گا کہ مرمت کروا کے دوبارہ انسپیکشن کے لیے لائے۔ دوسری انسپیکشن سیفٹی کے حوالے سے ہے۔ یہاں گاڑی کے بریک ٹائر اور لائٹ دقیق نظر سے دیکھے جاتے ہیں اور جب تک انسپیکشن والے گاڑی کو پاس کر کے ونڈ سکرین پر سٹکر Sticker نہیں لگا دیتے ڈرائیور کو اس کار یا جیپ کے ساتھ سڑک پر لانے کا حق نہیں ۔یہاں قوانین کی تنفیذ پر سمجھوتہ نہیں ہوتا۔
آپ کو یاد ہو گا کہ 2008ء میں امریکی معیشت کساد بازاری یعنی Depression کا شکار تھی۔ ہر طرف مندی تھی۔ بیروزگاری کی شرح بڑھ گئی تھی۔ نئے گھروں کے خریدار کم کم تھے۔ آج امریکہ کی معیشت پھر سے بحال ہوگئی ہے۔ بیروزگاری کی شرح کم ہے۔ نئے گھروں کی ڈیمانڈ بہت ہے۔ معیشت کی بحالی کا سہرا اکثر لوگ بارک اوباما کے سر باندھتے ہیں‘ جس نے امریکہ کو عراق کی جنگ سے نکالا اور افغانستان میں عسکری اخراجات کم کئے۔ صدر اوباما کا دوسرا کارنامہ اوباما کیئر کی ہیلتھ پالیسی تھی جس سے غریبوں اور بوڑھوں کا فائدہ ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے الیکشن مہم میں اوباما کیئر کی مخالفت کی تھی لیکن وہ ابھی تک اسے بدل نہیں سکے کیونکہ امریکی پارلیمنٹ یعنی کانگرس میں کئی ری پبلکن ممبر بھی تبدیلی کے حق میں نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ خوشحال ملک ہے لیکن یہاں بھی آپ کو کہیں کہیں ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو کہ Please help me یا I am homeless کے پوسٹر اٹھائے پھرتے ہیں۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سست الوجود لوگ شراب یا منشیات خریدنے کے لیے بھیک مانگتے ہیں۔ خوشحالی‘ خالص خوراک اور فاسٹ فوڈ کا ایک منفی نتیجہ یہ ہے کہ امریکی بہت موٹے ہو رہے ہیں۔ بالغ لوگوں میں سے دو تہائی سے زائد 69فیصد کا وزن آئیڈیل وزن سے زائد ہے۔ اچھا اور صحت مند وزن وہ ہوتا ہے جب آپ کا باڈی ماس انڈکس Body mass index پچیس یا اس سے کم ہو اور ایک تہائی سے زیادہ 38فیصد امریکن انتہائی موٹے ہیں۔ موٹاپے سے بلڈ پریشر ذیابیطس اور دل کے امراض بڑھ رہے ہیں۔ امریکی خوشحالی‘ کاروں کا عام استعمال اور فاسٹ فوڈ نے بہت سارے منفی اثرات بھی مرتب کئے ہیں۔ ویسے گر کر دوبارہ ابھرنا اس سوسائٹی کا خاصا ہے اور مجھے یقین ہے کہ فربہی کے مسئلے کا حل بھی نکال لیا جائے گا۔ کاربن ڈیل Carbondale الّی نوائے میں جولائی کے آخر میں گرمی خاصی تھی۔ میں اپنی ہمشیرہ کے ساتھ ایک بڑے شاپنگ مال میں واک کرنے جاتا تھا۔ اس مال کا ایک چکر ایک میل کے برابر تھا۔ ایئرکنڈیشنڈ ماحول میں جتنی دیر بھی پیدل چلیں تھکن کا احساس کم ہوتا ہے۔ ہم روزانہ تین چکر ضرور لگاتے تھے۔ شاپنگ مال میں خریداروں کی کمی صاف نظر آتی تھی بلکہ بعض دفعہ محسوس ہوتا تھا کہ مال میں اُلّو بول رہے ہیں۔ سبب معلوم کیا تو پتہ چلا کہ اکثر امریکن اب آن لائن شاپنگ کرتے ہیں۔ میسی Macy,s اور جے سی پینی JC Penny جیسے بڑے بڑے سٹور اپنی شاخیں کم رہے ہیں۔ توقع ہے کہ آئندہ سالوں میں شاپنگ مال بھی کم بنیں گے۔
امریکہ ٹیکنالوجی میں ایک عرصے سے ورلڈ لیڈر ہے ۔ہوائی جہاز اور کمپیوٹر خالصتاً امریکی ایجادات ہیں اور ان کی وجہ سے ہی ہماری زندگی میں انقلاب آیا ہے۔ ایک اور اہم امریکی ایجاد یعنی سو فیصد بیٹری پر چلنے والی گاڑی تین چار سال پہلے مارکیٹ میں آ گئی تھی۔ اس سے اگلا قدم بلا ڈرائیور گاڑی ہے۔ گاڑی کے کمپیوٹر میں آپ اپنی منزل مقصود درج کر دیں گے اور یہ خود بخود آپ کو وہاں لے جائے گی۔ اس ایجاد سے حادثات بہت ہی کم ہو جائیں گے۔
امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹرز نے خاصی عزت کمائی ہے اور دولت بھی۔ امریکی اپنا کام خود کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ بڑے سے بڑا آدمی اپنے لان کی گھاس خود کاٹتا ہے۔ گھاس کاٹنے والی مشین کی وجہ سے یہ کام خاصا آسان ہو گیا ہے۔ گھریلو نوکر میں نے یہاں صرف ڈاکٹروں کے گھروں میں دیکھے ہیں۔ باقی متمول پاکستانی ہفتہ میں ایک بار میڈ سرونٹ کو بلاتے ہیں ۔وہ اپنی کار میں آتی ہے اور ایک دو گھنٹے میں صفائی کر کے چلی جاتی ہے۔ ہمہ وقت نوکر رکھنا یہاں تقریباً ناممکن ہے۔
ایک ڈنر پر پاکستانی ڈاکٹرز خاصی تعداد میں تھے۔ ایک صاحب کہنے لگے کہ پاکستان میں ڈاکٹروں کے مزے ہیں ۔میں نے کہا کہ وہاں ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور کینیڈا میں ڈاکٹر عیش کرتے ہیں۔ کہنے لگے آپ کو کبھی کسی پاکستانی ڈاکٹر نے فیس لے کر رسید دی ہے ؟میرا جواب نفی میں تھا۔ پھر وہ گویا ہوئے کہ نارتھ امریکہ میں ڈاکٹروں کی تمام فیسیں انشورنس کمپنیوں کے ذریعہ ادا کی جاتی ہیں البتہ تھوڑا سا حصّہ مریض خود ادا کرتا ہے اور بھی عام طور پر کریڈٹ کارڈ کے ذریعے۔ یہاں کرنسی نوٹ کا استعمال تقریباً ختم ہو رہا ہے۔ ایک ڈاکٹر صاحب بولے کہ امریکہ میں مریض ڈاکٹر پر رعب ڈال سکتا ہے۔ ذرا سی غلطی ہو جائے تو یہ لوگ ڈاکٹروں پر مقدمہ کر دیتے ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ میں کالے اور گورے کی تمیز ختم ہو چکی ہے اور اس کا ثبوت بارک اوباما کا دو مرتبہ صدر ہو جانا تھا۔ لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ انسانی مساوات کا خواب ابھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوا ۔ورجینیا کے ایک قصبے میں نسلی فساد ہوا ہے ۔ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کا خواب ابھی پورا نہیں ہوا۔ لیکن امریکی معاشرے کی سمت صحیح ہے۔ یہاں تعلیم اور میرٹ دونوں بیحد اہمیت کے حامل عوامل ہیں۔ (جاری)