منتخب کردہ کالم

ابھی رکاوٹیں ختم نہیں ہوئیں….افتخار احمد

ہاف فرائی...افتخار احمد

اس ہفتے ہونے والے دو اہم فیصلوں نے آنے والے انتخابات کے بارے میں ہونے والی قیاس آرائیوں کو کسی حد تک کم کر دیا ہے۔ اس میں سب سے اہم فیصلہ کونسل آف کامن انٹرسٹ کے اجلاس میں کیا گیا، چاروں صوبوں اور وفاق کی نمائندگی رکھنے والی سی سی آئی نے حالیہ دنوں میں ہونے والی مردم شماری کے عارضی نتائج کی بنیاد پر نئے سرے سے حلقہ بندیاں کرنے کی منظوری دے دی۔ آئندہ سال میں ہونے والے انتخابات کی قسمت اس فیصلے سے بڑی حد تک جڑی ہوئی تھی۔ اگر اس فورم پر مردم شماری کے نتائج کے بارے میںکوئی فیصلہ نہ ہوپاتا تو اگلے سال اگست میں ہونے والے انتخابات کے موخر ہونے کا خدشہ بہرحال موجودتھا۔ نئی مردم شماری کے حوالے سے سندھ کو بہت سے تحفظات تھے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بارہا اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ اسی طرح ایم کیو ایم بھی کراچی کی آبادی کم دکھائے جانے کی شکایت کرتی نظر آرہی تھی۔ سی سی آئی کے اجلاس سے قبل ایسا لگتا تھا کہ شاید چاروں صوبے اس مردم شماری کے معاملے پر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائیں گے لیکن سیاستدانوں نے غیر معمولی طور پر عقلمندی سے کام لیتے ہوئے اس مسئلے کو احسن طریقے سے حل کر لیا۔اگرچہ جمعرات کے روز پارلیمنٹ کے اجلاس کے موقع پر ایم کیو ایم نے عجیب رویے کا اظہار کیا ، سی سی آئی کے اجلاس میں ایک فیصد مردم شماری کی چیکنگ کے لئے تیار ہو گئی مگر ووٹنگ سے پہلے 10 فیصد بلاکس کی چیکنگ کا مطالبہ کر دیا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور فوری طور پر وزیر اعظم کو چیمبر میں طلب کیا گیا اور بری مشکل سے آخری لمحے ایم کیو ایم کو 5 فیصد پر رضا مند کیا گیا۔ اب یہ مسئلہ سی سی آئی کے پاس دوبارہ منظوری کے لئے جائے گا۔
دوسرا اہم فیصلہ قومی اسمبلی نے کیا جہاں نئی انتخابی حلقہ بندیوں سے متعلق بل دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔ اس بل کے حق میں دو سو بیالیس اراکین اسمبلی نے ووٹ دیا، جمشید دستی وہ واحد رکن تھے جنہوں نے اس بل کی مخالفت میں ووٹ ڈالا۔بل میں پنجاب سے قومی اسمبلی کی نو نشستیںکم کر دی گئی ہیں جبکہ خیبر پختونخوا سے قومی اسمبلی کی پانچ نشستیں بڑھا دی گئی ہیں، اسی طرح بلوچستان کو بھی قومی اسمبلی کی تین اضافی نشستیں دے دی گئی ہیں۔ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے لئے بھی ایک قومی اسمبلی کی نش