اب پُر تشدد بھیڑ کی خیر نہیں!….ڈاکٹر وید پرتاب ویدک
اپنی مانگوں کے لیے بھارت میں دنگے اور توڑ پھوڑ کرنے والوں کی اب خیر نہیں‘ کیونکہ بھارت کی سپریم کورٹ اور وفاقی سرکار‘ دونوں ہی ان پر لگام لگانے کے لیے متحد ہو گئے ہیں۔ بھارت کے اٹارنی جنرل نے عدالت میں مانگ کی ہے کہ ہر اضلاع کے سرکاری افسروں کو ذمہ دار بنا کر دنگے فساد اور توڑ پھوڑ کو روکا جائے۔ یہ بھی کہا گیا کہ جس طرح غیر قانونی تعمیراتی کاموں کو روکنے کے لیے متعلقہ ضلع افسروں کو جواب دہ بنایا گیا ہے‘ ویسے ہی کسی بھی مظاہرے‘ دھرنے یا جلوس میں تشدد ہونے پر اسے روکنے کی ذمہ داری مقامی افسروں پر ڈالی جائے۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری میں ناکام ہوں تو انہیں اس کی سزا ملنی چاہیے۔ گزشتہ دنوں پدماوتی فلم کو لے کر کرنی سینا نے کتنا نقصان کیا تھا۔ انہوں نے دیپیکا کی ناک کاٹنے کا اعلان کر دیا تھا‘ اور سینما گھروں کو جلانے کی دھمکیاں بھی دے ڈالی تھیں۔ میں نے جب اس فلم کو دیکھ کر اپنی رائے ظاہر کی تو مجھے قتل کی دھمکیاں آنے لگیں‘ لیکن پولیس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔ اس طرح مراٹھا مظاہرین اور شیڈول کاسٹ والوں نے جو خوفناک طریقے سے نقصان کیا‘ اس میں کاوڑیوں نے اور زیادہ مرچ مصالحہ ملا دیا۔ جب تک ان تشدد بھرے مظاہروں‘ جلسوں کے خلاف ٹھوس کارروائی نہیں ہو گی‘ ہماری جمہوریت مذاق بن کر رہ جائے گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مظاہرین سے جمہوریت والا حق چھن رہا ہے۔ جو بھی اس طرح کے تشدد والے جلسے کریں‘ چاہے وہ کسی بھی پارٹی کے آدمی ہوں‘ انہیں اس کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ انہیں جیل ہو گی یا بھاری جرمانہ بھرنا پڑے گا تو وہ اس کام سے ضرور باز آ جائیں گے۔ اس سے بھارتی جمہوریت کی سطح اونچی اٹھے گی اور ملک کا عام آدمی اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھنے لگے گا۔ سماجی لحاظ سے بھی یہ ایک بہت ہی اچھا اقدام ہے‘ کیونکہ پچھلے کچھ عرصے کے دوران بھیڑ تشدد کے کئی واقعات ہوئے ہیں‘ اور بعض تو ایسے تھے جن میں سوشل میڈیا پر پھیلائی ہوئی جھوٹی خبروں کو لے کر لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایسے میں بہت سے لوگوں کی جانیں بھی چلی گئیں۔ اب اٹارنی جنرل کی مانگ پر اگر ہر اضلاع کے سرکاری افسروں کو ذمہ دار بنا کر دنگے اور توڑ پھوڑ کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے تو‘ امکان ہے کہ ایسے واقعات بڑی حد تک کم ہو جائیں گے‘ کیونکہ ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ بھیڑ تشدد کے کئی واقعات میں پولیس خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ سرکاری افسران کو یہ ذمہ داری سونپی جائے گی تو وہ پولیس کو امن قائم رکھنے کے لئے خود ہی متحرک کر لے گا اور اس طرح حالات قابو میں رہیں گے۔
نئے قانون میں تین ترامیم
جب بھارت میں تین طلاق کا بل لایا گیا تھا‘ تبھی میں نے لکھا تھا کہ یہ قانون بہت جلد بازی میں بنایا جا رہا ہے اور یہ اتنا ہی ظالم ثابت ہو گا جتنی کہ خود تین طلاقیں ہیں۔ تین طلاقیں اور بھارت میں اس کے خلاف بننے والا حالیہ قانون دونوں ہی زیادتی کا باعث تھے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ بھارتی وزرا‘ کابینہ نے اس بل کو کیسے پاس کر دیا؟ اب حکومت نے اس میں تین ترامیم کر کے‘ اسے راجیہ سبھا میں بھیجا ہے۔ اس کا مطلب کیا یہ نہیں کہ مودی کے وزرا‘ قانون کے معاملے میں خبردار نہیں ہیں‘ کسی نے بھی آ کر عالم وزیر اعظم کے کان میں پھونک ماری اور بل تیار ہو گیا۔ اس پر پی ایم کے وزرا نے ہاں میں ہاں ملا دی۔ کس وزیر میں دم ہے کہ پی ایم صاحب سے سوال پوچھے کہ اس بل میں فلاں قاعدے کیوں رکھے گئے ہیں‘ یا نوٹ بندی کیوں کی جا رہی ہے‘ یا حکومت کو جی ایس ٹی میں روز ہی ٹھوک پیٹ کرنے کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے؟ اس سے بھی بڑی حیرانی یہ ہے کہ ایسے الجھے ہوئے قانون یا بلوں کو پارلیمنٹ کی اکثریت بھی ہری جھنڈی دے دیتی ہے۔ ہم یعنی بھارت کے عوام ان ممبران آف پارلیمنٹ کو ایوان میں کیا جی حضوری کے لیے بھیجتے ہیں؟ یہ سوال اہم ہے کہ سرکار کے تجربہ کار ممبر آف پارلیمنٹ اپنے وزیروں اور وزیر اعظم صاحب کو صحیح راستہ کیوں نہیں دکھاتے؟ بہتر قانون سازی کے سلسلے میں ان کی مدد کیوں نہیں کرتے؟ ان پر روک کیوں نہیں لگاتے؟ ان پر نظر کیوں نہیں رکھتے؟ اب بھارت میں تین طلاقوں کے قانون میں جو تین ترامیم کی گئی ہیں‘ ان کی وجہ سے وہ کافی بہتر ہو گیا ہے۔ ایک تو مجسٹریٹ کو پاور دیا گیا ہے کہ وہ ملزم کو ضمانت دے سکتا ہے‘ دوسرا‘ ایف آئی آر کوئی بھی نہیں لکھ سکتا۔ پولیس میں پہلی اطلاع یا تو طلاق سے متاثرہ بیوی‘ بلڈ ریلیشن یا پھر سسرال کے جانب کے لوگ ہی لکھوا سکیں گے۔ تیسرا‘ اگر بیوی اور شوہر چاہیں تو مقدمہ واپس لے سکتے ہیں۔ ان ترامیم کے ساتھ اس بل کو بھارت میں قانون کی شکل دینے میں فی الحال کوئی برائی نہیں دِکھتی۔ اس قانون کی گھنٹیاں ادھر سال بھر سے بج رہی ہیں‘ ان کے باوجود بھارت میں تین طلاقوں کے سینکڑوں واقعات ہو رہے ہیں۔ اگر یہ قانون سختی سے نافذ ہو گیا تو بھارت کی خواتین کے لیے یہ ایک نعمت ثابت ہو گا۔
کچھ چین کے بارے میں
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی نے چین کے اندر بسنے والے مسلمانوں کے حالات پر زوردار آواز اٹھائی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اویغر اور ہوئی مسلمانوں کو بعض قدغنوں کا سامنا ہے۔ چین کا موقف دوسرا ہے۔ چینی حکومت کہتی ہے کہ وہ صرف ان عناصر کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے‘ جنہیں باہر کے شدت پسندوں کی حمایت حاصل ہے اور جو ایسی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ مگر اقوام متحد ہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اویغر صوبہ میں دس لاکھ مسلمانوں کو بند کر کے رکھا گیا ہے جبکہ بیس لاکھ کو مختلف حوالوں سے پابند کیا جا رہا ہے۔ لگ بھگ سوا کروڑ اویغر مسلمان چین کے سنکیانگ صوبہ میں رہتے ہیں۔ اس صوبہ کے دارالحکومت کا نام اُرمچی ہے۔ اس صوبے میں یارقند جیسے تاریخی شہر ہیں۔ چین کا یہ مغربی علاقہ گوبی ریگستان کے پار بسا ہوا ہے۔ اس صوبے کی سرحد بھارت‘ پاکستان‘ منگولیا اور وسطی ایشیا کے ملکوں کو چھوتی ہے۔ سنکیانگ صوبہ تبت کی طرح صدیوں تک چینی قبضے کے باہر رہا‘ اور بیسویں صدی میں وہاں بغاوتیں ہوتی رہی ہیں۔ اس صوبے کے کئی شہروں میں وقت گزارنے کا موقع مجھے ملا ہے۔ اس علاقے کے لوگوں کی شکل و صورت‘ زبان‘ لباس اور کھان پان چینی ہان لوگوں سے بالکل مختلف ہے۔ اس صوبے میں اتنے ہان چینیوں کو بسا دیا گیا ہے کہ اویغر لوگ اپنے ہی گھر میں اقلیت بن کر رہ گئے ہیں۔ انہیں پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عاید کی گئی ہیں۔ اگر کوئی اویغر سرکاری ملازم ہو تو اسے داڑھی نہیں رکھنے دی جاتی ہے‘ ٹوپی نہیں پہننے دی جاتی‘ عید پر بھیڑ نہیں لگانے دی جاتی۔ برقعے پر پابندی ہے۔ کمیونسٹ افسروں کا شکنجہ سدا کسا رہتا ہے۔ ہر برس دنگوں میں سینکڑوں اویغر اور چینی مارے جاتے ہیں۔ اویغر مسلمانوں کو ملک کا دشمن مانا جاتا ہے۔ ہوئی مسلمانوں کے ساتھ چینی سرکار تھوڑی نرم ہے‘ کیونکہ وہ ہان اور منگول ذاتوں کی ملاوٹ سے بنے ہیں۔ اقوام متحدہ نے چین پر نسل پرستی اور مذہب کے خلاف ہونے کے دو الزام ایک ساتھ لگائے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ چین کے بودھ‘ مسلم اور عیسائی دوسرے درجے کے شہری کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔