منتخب کردہ کالم

اترپردیش کا قصاب! (حرف ناز) نازیہ مصطفیٰ

بھارت گزشتہ ستر برسوں سے سیکولر ملک ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتا چلا آرہا ہے، لیکن گزشتہ ستر برسوں میں کسی ایک لمحہ بھی بھارت پر سیکولرملک ہونے کا شائبہ تک نہیں ہوا۔یہ شائبہ ہو بھی بھلا کیسے ہو کہ جس ملک کا نام ہی ”بھارت‘‘ ہے تو وہ سیکولر ہوبھی کیسے سکتا ہے؟ ہندوتوا کا پرچار اور ہندوتوا کے آئینہ دار نام ”بھارت‘‘ کے ساتھ انڈیا کا سیکولر ہونے کا دعویٰ تو یوں بھی جھاگ کی طرح بہہ جاتا ہے۔ اس دعویٰ پر بھی مستزاد یہ کہ اِس وقت بھارت میں ہندوتوا کی پرچارک بھارتیہ جنتا پارٹی برسراقتدار ہے۔ بی جے پی اگرچہ پہلے بھی اقتدار میں رہ چکی ہے، لیکن اس بار ”بھاری مینڈیٹ‘‘ کے ساتھ اُس شخص کو بھارت کا وزیراعظم بننے کا موقع ملا ہے، جسے گجرات کا قصاب ہونے کا خطاب ملا اور اِسی وجہ سے امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک نے اُسے ”بین‘‘ کیے رکھا، لیکن دنیا کی سب سے بڑی ”جمہوریت‘‘ میں ہواؤں کا رُخ تبدیل ہوتا دیکھ کرنہ صرف امریکہ اور مغرب نے اپنی ایک دہائی پرانی پالیسی تبدیل کرلی بلکہ گجرات کے اِسی قصاب کے ساتھ مل کر عالم اسلام کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بننا شروع کردیے۔ اٹل بہاری واجپائی جیسے قدرے قابل قبول رہنماؤں کے مقابلے میں نریندر مودی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک ایسے رہنماء کے طور پر اُبھرے، جنہوں نے اقلیتوں کا جینا حرام کیے رکھا۔
نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے سے پہلے اور فوری بعد یہی کہا جارہا تھا کہ مودی نے اپنا کٹر ہندو ہونے اور مسلم مخالف ہونے کا ڈھونگ صرف اور صرف وزیراعظم بننے کیلئے رچایا تھا اور انتخابی مہم ختم ہوتے ہی یہ ڈھونگ بھی ختم ہوجائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ جو مناظر پہلے صرف گجرات میں نظر آتے تھے، نریندر مودی کے مرکز میں اقتدار میں آنے کے بعد ہندوتوا کے وہ مناظر سارے بھارت میں دکھائی دینے لگے، لیکن اب تو مناظر کے ساتھ ساتھ مختلف صوبوں میں چہرے بھی وہی دکھائی دینے لگے، جن کی آنکھوں میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا خون صاف دکھائی دیتا ہے۔ اِنہی چہروں میں ایک چہرہ ”یوگی آدتیہ ناتھ‘‘ کا بھی ہے۔ زعفرانی لبادے میں ملبوس رہنے والا 44 سالہ آدتیہ ناتھ یوگی شعلہ بیان مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ پانچ بار بھارت کا رکن پارلیمنٹ بھی منتخب ہوچکا ہے۔ یوگی بھارت میں اگرچہ انتہائی متنازع شخصیت کا حامل سیاستدان ہے اور اکثر اپنے اقلیت دشمن بیانات اور وجوہات کی بناء پر خبروں کی زینت بھی بنتا رہتا ہے، یہی وجہ ہے غیر جانبدار ناقدین متفق ہیں کہ آدتیہ ناتھ یوگی بھارت کا سب سے زیادہ تفرقہ باز سیاستدان ہے، جس نے اپنے سیاسی جلسوں کو بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت ابھارنے کے لیے استعمال کیا۔ ہندوتوا کے پرچار کی وجہ سے بہت سے ہندو اُسے ”دیوتاؤں کا اوتار‘‘ سمجھ کر یوگی کی پوجا تک کرتے ہیں، جس کی ایک جھلک اُس وقت دیکھنے کو ملی، جب آدتیہ ناتھ رواں ماہ 19 مارچ کو ایک مندر میں اترا پردیش کے وزیرِ اعلیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد اپنے علاقے گورکھ پور لوٹا تو اس کا ایک ہیرو کی طرح استقبال کیا گیا، راتوں رات پورا شہر اس کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے زعفرانی رنگ میں رنگ دیا گیا، شہر بھر میں زرد پھولوں کی بہار آ گئی اور اس کے پیروکار گھنٹوں اس کے انتظار میں راستوں پر بسر و چشم کھڑے رہے۔
آدتیہ ناتھ کی جیت نے ادرون و بیرون ملک اپنے پرائے سب کو حیران کردیاہے، حد تو یہ کہ امریکی اور مغربی میڈیا تک آدتیہ کی انتخابی فتح پر چیخ پڑاہے ۔ برطانوی اخبار گارڈین نے یوگی کی فتح کو ”مسلمان مخالف تعصب کی جیت‘‘ قرار دیا تو نیویارک ٹائمز نے کہا کہ ”وزیراعظم نریندر مودی آدتیہ ناتھ یوگی کو اتر پردیش کا وزیراعلیٰ بناکر ہندو انتہا پسندوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں، جو دراصل مذہبی اقلیتوں کے لیے ہولناک سرزنش کے مترادف ہے‘‘، خود بھارتی دانشور یوگی کے وزیراعلیٰ بننے کو اقلیتوں کے خلاف ایک نفرت انگیز اور خوفناک پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔یوگی اسلام کے اس قدر خلاف ہے کہ اِسی نے الزام لگایا تھا کہ مسلمان ”لو جہاد‘‘ کرتے ہیں اور ہندو لڑکیوں کو ورغلا کر اُنہیں مسلمان بنا دیتے ہیں۔ اس الزام کے بعد یوگی نے یہ بھی کہا تھا کہ ”ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر وہ ایک ہندو لڑکی کا مذہب تبدیل کرواتے ہیں تو ہم 100 مسلم لڑکیوں کا مذہب تبدیل کروائیں گے‘‘۔یوگی نے ایک جانب مسلمانوں پر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرز کی پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تو دوسری جانب بالی وڈ اسٹار شاہ رخ خان کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا۔یوگی نے مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلیتوں کو بھی نہیں بخشا اور دعویٰ کیا تھا کہ مدر ٹریسا بھارت کو عیسائی بنانا چاہتی تھی۔ یوگی کو سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے نظریات کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔ یوگی نے اقتدار میں آنے سے پہلے مسلمانوں کی آبادی کو کم کرنے کیلئے حکومت سے اقدامات کا مطالبہ کیا تو دوسری جانب ملک کی تمام مساجد کے اندر ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں رکھوانے بھی اعلان کردیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ جب ایودھیا میں متنازع ڈھانچہ (بابری مسجد) کو گرانے سے کوئی نہیں روک سکا تو مندر بنانے سے کون روکے گا۔بھارت میں مسلمانوں کے دارالعلوم دیوبند کا نام تبدیل کرنے کی جانب یوگی کی پیشرفت بھی اِسی سلسلے کی کڑی ہے۔
سخت گیر ہندو نظریات کے حامل یوگی کو بھارتیہ جنتا پارٹی میں نریندر مودی کے بعد ”نمبر ٹو‘‘ بھی سمجھا جارہا ہے۔مودی پر تو گجرات کا قصاب ریاست کا وزیراعلیٰ بننے کے بعد لگا تھا، جبکہ آدتیہ ناتھ پر تو قتل، اقدامِ قتل، جلاؤو گھیراؤ ، دھمکانے اور دہشت گردی کے سنگین الزامات پہلے سے موجود ہیں۔آدتیہ ناتھ خود گوشت نہیں کھاتا اور اُس نے عمر بھر برہمچاری (سبزی خور) رہنے کا عہد بھی کر رکھا ہے۔ اِسی لیے اترپردیش جیسی ریاست جس میں چار کروڑ مسلمان آباد ہیں،کا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد یوگی نے جو پہلا حکم ہی دیا وہ غیرقانونی ذبح خانے بند کروانے کا حکم تھا، جس کی حقیقت یہ ہے کہ غیر قانونی ذبح خانوں کے بہانے سے دراصل پوری ریاست میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی عاید کردی گئی ہے، یوگی کے اِس عمل کے خلاف پوری ریاست کے قصاب (جن کی اکثریت مسلمانوں کی ہے) اب ہڑتال پر ہیں۔ ریاست کے چار کروڑ مسلمانوں کو خدشہ ہے کہ یوگی کے اسلام دشمن اور مسلم کش اقدامات ذبح خانے بند کرنے تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ ”ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے‘‘ والی صورتحال ہے۔ نجانے یہ پارٹی کب تک جاری رہے گی اور جب تک یہ پارٹی جاری رہے گی ،اُترپردیش کے چار کروڑ مسلمانوں کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اترپردیش کے اِس نئے قصاب کے ”ظہور‘‘ کے بعد بھارت نے ستر برسوں سے سیکولر ریاست کا جو بت تراشا تھا، وہ زمین بوس ہوگیا ہے۔