اتنی سی بات تھی۔۔۔۔۔۔!…ظفر اقبال
یہ کوئی ہفتہ بھر پہلے کی بات ہے ،میں ناخن تراش رہا تھا کہ بائیں انگوٹھے کے کونے میں ایک ذرا سا حصہ باقی رہ گیا، جو ناخن تراش کی پکڑ میں نہیں آ رہا تھا۔ میں نے دائیں انگوٹھے اور انگشت ِشہادت سے اسے زور سے کھینچ کر باہر نکال دیا۔ خون تو نہیں نکلا،وہ کونا سرخ ضرور ہو گیا۔ اس کے بعد انگوٹھے نے مزیدسرخ ہونا شروع کر دیا اور باقاعدہ سوج گیا۔ چونڈہ سے ہماری عزیز دوست اور نہایت عمدہ پنجابی شاعرہ شکیلہ جبیں کا فون آیا تو میں نے انہیں بتایا۔ ان کی ایک بھابھی ڈاکٹر ہیں، جن سے پوچھ کر انہوں نے بتایا کہ آگمینٹن پانچ روز تک کھائیں۔ آگمینٹن کا کورس تو مکمل کر لیا، لیکن سرخی کم ہونے کے باوجود انگوٹھے پر پیپ جمع ہونے سے ابھار سا بن گیا۔ آفتاب اقبال کے ایک کلاس فیلوجاوید اسلام جو ان کے ٹی وی شو میں کام بھی کرتے ہیں اور ہمارے ساتھ فارم ہائوس پر ہی رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے دیکھ کر مشورہ دیا کہ معمولی آپریشن کے ذریعے اس کو نکلوا دیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ اوکاڑہ ہی کے ان کے ایک دوست، جو سرجن ہیں ، میں انہیں فون کر کے وقت لے لیتا ہوں۔ انہوں نے فون کر کے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی خدمت میرے لئے سعادت کی بات ہے۔ شام چھ بجے انہیں لے آئیں۔ ڈاکٹر طیب عباس جو علامہ اقبال میڈیکل کالج میں پروفیسر آف سرجری ہیں۔ جاوید اسلام صاحب نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب ہر اتوار کو اوکاڑہ جاتے ہیں اور وہاں آنے والے مریضوں کو مفت مشورہ دیتے ہیں۔ یہ بتانا اس لئے ضروری تھا کہ کمر توڑ مہنگائی کے اس زمانے میں جو افراد فیس مشورہ نہ دے سکتے ہوں یا مفت بری کرنا چاہتے ہوں، اوکاڑہ جا کر ان کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب شریفوں کے بھی فیملی ڈاکٹر رہے ہیں۔ نواز شریف کے والد محترم میاں محمد شریف کے خصوصی معالج بھی یہی تھے۔ جاوید اسلام بتاتے ہیں کہ بڑے میاں صاحب گرمیاں اکثر مری میں گزارتے۔ ڈاکٹر صاحب کو وہاں ہیلی کاپٹر کے ذریعے منگوایا جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ جب آپ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے تھے، تو میں اس وقت آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ انہوں نے بتایا کہ آپ کہیں بھی ہوں، آبائی شہر آپ کو ہمیشہ یاد آتا رہتا ہے۔ میں نے کہا کہ آبائی شہر کی تو بات چھوڑئیے۔ پرانا گھر بھی آپ کی یادوں سے کبھی محو نہیں ہوتا۔ میں نے اوکاڑہ کا پرانا گھر گرا کر نیا بنوایا، جس کا نقشہ ہمارے بہت ہی پیارے دوست صلاح الدین محمود نے بنایا جو ایک صاحب ِطرز شاعر ہونے کے ساتھ واپڈا میں سینئر آرکیٹکٹ کے طور پر بھی خدمات سر انجام دے رہے تھے اور جن کے حوالے سے ایک شرارتی سا شعر اب بھی میرے مجموعہ کلام میں موجود ہے؎
کھلائیں اس کو اوکاڑے کے امرود
اگر آئیں صلاح الدین محمود
پرانے گھر کی یاد میں جو شعر میں آپ کو سنانا چاہتا تھا، یہ ہے؎
آنکھوں میں کیا بسے نئی تعمیر کی خوشی
دل میں ابھی تو غم ہے پرانے مکان کا
اس گھر کے ساتھ گہری جذباتی وابستگی کا سبب شاید یہ بھی ہو کہ میری شادی اسی گھر میں ہوئی جبکہ میرے بچے بھی اسی گھر کی پیداوار ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے وہ پیپ دو منٹ میں خارج کر کے پٹی باندھ دی، بلکہ وہ بھی ساتھ دے دی کہ اسے احتیاطاً کسی اچھی لیبارٹری سے کلچر بھی کروانا ہے اور ایک آدھ دن تک دودھ، دہی اور کیلا بطور خاص استعمال کرنا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے نسخے میں میرے نام کے ساتھ محترم لکھا حالانکہ ڈاکٹر لوگ ایسا نہیں کرتے۔ اس سے مجھے یاد آیا کہ میرا نمبرداری کا کیس بطور نگرانی اخلاق احمد تارڑ صاحب کی عدالت میں چل رہا تھا جو کہ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو تھے۔ بحث والے دن جب انہوں نے مجھے نمبردار بنایا، جب بھی میرا نام لیتے، میرے نام کے ساتھ احتراماً ”صاحب‘‘ ضرور لگاتے۔ میں جب درخواست ان کے پاس لے کر گیا تو کہا کہ براہ کرم اسے اپنے پاس ہی رکھ لیں، جس پر انہوں نے کہا کہ اگر میں نے فیصلہ آپ کے خلاف کر دیا تو؟ میں نے کہا کہ آپ ایک اپ رائٹ افسر ہیں، مجھے یقین ہے کہ فیصلہ آپ میرٹ پر ہی کریں گے۔ فیصلہ دینے سے پہلے مزہ لیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ کیا نمبردار کا شاعر ہونا بھی ضروری ہوتا ہے؟ یہ کیس سپریم کورٹ تک بھی گیا، جہاں تارڑ صاحب کا فیصلہ ہی بحال رہا۔ اس سے یہ بھی بتانا مقصود تھا کہ میں اپنے گائوں کا نمبردار بھی ہوں اور کوئی معمولی آدمی نہیں ہوں!
اس کالم کے لکھنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ قارئین خبردار ہو جائیں اور ناخن تراشتے وقت اس حماقت سے بچیں جو میں نے کر ڈاتی تھی۔
عاتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا
چنانچہ انگوٹھا صاحب اب روبصحت ہیں۔ زخم مندمل ہو گیا ہے اور اس پر نئی کھال بھی آنا شروع ہو گئی ہے۔ ویسے اتنا سا کام تو میں خود بھی کر سکتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو خواہ مخواہ زحمت دی۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا کہ بات زیادہ بڑھ جاتی اور ڈاکٹر صاحب کے پاس آنا ہی پڑتا، یعنی
عرسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت
واپسی پر جنید اقبال کے ہاں ماڈل ٹائون میں جانا ہوا جہاں مسز جنید یعنی میری سب سے چھوٹی بہو دو دن ڈاکٹرز ہسپتال میں گزار کر آئی تھیں۔
جاتے جاتے ثبین سیف کا ایک شعر بھی سنتے جائیں، جو اپنا نام ”ث سے ثبین‘‘ بھی لکھا کرتی ہیں کہ ان کے نام کے ہجے کہیں غلط نہ کر دیئے جائیں؎
ایک فقط اس دل کے روشن کرنے کو
آگ لگا دوں ہنستے بستے گھر کو کیا
آج کا مطلع
محبت کر ہی بیٹھے ہیں تو پھر اظہار کیا کرتے
اسے بھی اس پریشانی سے اب دو چار کیا کرتے