اجتماعی قیادت۔ شراکتی جمہوریت….محمود شام
یوم انتخاب گزر گیا، مگر اپنے پیچھے بہت سے سوالات گرد و غبار، خدشات اور خطرات چھوڑ گیا۔ یہ بارودی سرنگیں نہ جانے کب پھٹ پڑیں۔ انتخابی مہم میں قائدین کرام نے جو زبان استعمال کی، جو الزامات عائد کئے، وہ انتخاب میں ہار جیت کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتے۔ بچوں بزرگوں نوجوانوں خواتین کے دل و دماغ میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو انتخابی مہم انتخابات کے ساتھ کبھی ختم نہیں ہوئی، یہ اگلے انتخابات کے اعلان تک جاری رہتی ہےماہرین نفسیات اور سماجیات کبھی تجزیہ کریں تو اندازہ ہو کہ یہ انتخابی تقریریں کس طرح قوم کی نفسیات پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ سیاسی جماعتیںبالکل مذہبی فرقوں کی شکل اختیار کرگئی ہیں۔ عام سیاسی کارکن اپنی پارٹی سے، اپنے لیڈر سے اندھی عقیدت کرتا ہے۔ اس کی ہر بات، ہر حرکت، ہر ادا سے عشق کرتا ہے، انتخابیے (Electables) تو اپنا قبلہ بدل لیتے ہیں لیکن کارکنوں کی اکثریت اپنا محبوب نہیں بدلتی۔
اب ایک طرف وہ سنگین مسائل ہیں، جو میرے اور آپ کے وطن کو اندرونی اور بیرونی دونوں سمت سے گھیرے ہوئے ہیں، سب سے بڑا مسئلہ روپے کی مسلسل گراوٹ ہے، بے شمار مشکلات اسی سے پیدا ہورہی ہیں۔ پانی کی قلت ہے۔ ہر لحظہ بڑھتی درآمدات ہیں، انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے۔ انتخابی مہم سے پیدا ہونےوالی محاذ آرائی ہے۔ ہمارےسامنے
قیادتوںکے جو دعویدار ہیںان میںسے کون ہے جو اپنے آپ کو عقل کل نہیں سمجھتا، کون ہے جو اپنی انا کو کچھ وقت کیلئے ایک طرف رکھ کر صرف اور صرف ملک کے مفاد پر توجہ دے۔ کس میں اتنا تدبر اور استعداد ہے کہ دوسری پارٹیوں کے سربراہوںسے بیٹھ کر آئندہ پانچ سال کو پرسکون اور محفوظ بنانے کیلئے سوچے۔
انتخابی مہم کے آخری دنوں میں سب سےکمسن لیڈر بلاول علی بھٹو زرداری کے شیریں لہجے، ٹھہر ٹھہر کر بولنے اور زیادہ تر مسائل کی بات کرنے سے اس کی ’’ریٹنگ‘‘ بڑھ گئی، مگر یہ واقعہ تاخیر سے رونما ہوا۔ بلاول کو اپنےاتالیق دیر سے میسر آئے۔ اپنے پوسٹروںاور اشتہاروں سے اپنے پاپا اور پھوپھی کی تصویریں نکالنے کا فیصلہ بھی دیر سے کیا گیا۔ الزام تراشی اور دشنام طرازی کے دور میں بلاول کی گفتگو پسند کی گئی، اللہ کرے اسے بڑے ہوکر بھی گالی دینی نہ آئے۔
اس مہم کا ایک تاثر یہ بھی ہے کہ پاکستانیوں کی ہمدردیاں مریم نواز سے بڑھ رہی ہیں۔آئندہ انتخابات میں یہ ان کیلئے کارگر ہوسکتی ہیں۔ قیادت کے اس بحران میں انتخابی مہم نے آپ کو اور ہمیں یہ اُمید دی ہے کہ بلاول اور مریم مستقبل کی قیادت سنبھال سکتے ہیں۔ اگر اپنے والدوں کا راستہ اختیار نہ کریں۔
جو بھی حکومت بنتی ہے، اسے سب سے پہلے بیمار معیشت کیلئے جان بچانے والے انجکشن کا اہتمام کرنا ہوگا۔معیشت کی اس زبوں حالی میں سب سے بڑا حصہ پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کی طرز سیاست، مبہم اور متضاد پالیسیوں اور ذاتی تجوریاں بھرنے کے رجحان کا ہے۔دس سال کی یہ خرابیاں کیسے دور ہوں گی۔ یہ سب کو مل بیٹھ کر سوچنا چاہئے۔ سیاسی حکومتوں کی مصلحت کوشی، معیشت سے دانستہ غفلت ہی تین سالہ ٹیکنوکریٹ عبوری حکومت کا جواز پیدا کرتی ہے۔ اس کا تذکرہ اب بھی ہوتا رہا۔ اگر نومنتخب حکومت بھی معیشت کو مستحکم نہ کرسکی پھر اس فارمولے کا تذکرہ ہوگا۔ اس لئے ملک کےمفاد میں ضروری ہےکہ حکومتی پارٹی یا پارٹیاں وفاق میں بھی اور صوبوں میں بھی اجتماعی قیادت یاشراکتی جمہوریت کا راستہ اختیا رکریں۔اس سے میری مراد قومی حکومت یا مخلوط حکومت ہرگز نہیں ہے، یہ دونوں طرز حکومت مزید محاذ آرائی اور کرپشن کا ذریعہ بنتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ ملک میں اکثریت ایسے ماہرین کی موجود ہے جو ملک کا واقعتاً درد رکھتے ہیں اور وہ دن رات سوز و ساز رومی اور پیچ و تاب رازی سے گزرتے ہیں۔ ان کا مشاہدہ بھی ہے اور مطالعہ بھی کہ زبوں حال معیشت والے ممالک انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ، انڈیا، ترکی نے ان بحرانوں پر کیسے عبور حاصل کیا۔ سالہا سال تک جنگوں سے تار تار ہونے والا ویت نام اب بہت زیادہ برآمدات کرنے والا ملک کیسے بن گیا ہے۔ سنگاپور ایک معمولی سا چھوٹا جزیرہ دنیا کی بڑی معیشتوں میں کیسے شمار ہونے لگا۔ ہمارا عظیم دوست چین سرفہرست معیشت کیسے قرار پایا ہے۔ ان دردمند ماہرین سے غیررسمی،غیر سرکاری طور پر لیکن باقاعدہ مشاورت سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ متعلقہ وزارتوں کیلئے ان کی کمیٹیاں بنائی جاسکتی ہیں۔
صرف ٹیکنوکریٹس ہی نہیں یونیورسٹیوں سے بھی کام لیا جاسکتا ہے۔ بہت سے تحقیقی ادارے ہیں، این جی اوز ہیں جو اپنے طور پر پاکستان کے مختلف شعبوں تعلیم، زراعت، پانی، صحت پر رپورٹیں مرتب کرتے رہتے ہیں،ان سے مسائل حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
71 سال کے بعد پاکستان جہاں ہونا چاہئے وہاں نہیں ہے، آرمی چیف نے بھی کہا کہ گزشتہ چالیس سال سے معاملات ابتر ہوئے ہیں۔ڈاکٹر عشرت حسین، شوکت ترین، ڈاکٹر اشفاق حسن، وقار مسعود جیسے اقتصادی ماہرین کی تحقیق بھی یہی ہے کہ پہلے 30سال ہم آگے کی طرف بڑھے ہیں، 40سال سے ایسی خارجہ، داخلہ اور اقتصادی پالیسیاں اپنائی گئیں کہ استحکام ہمارے ہاتھ سے نکلتا گیا، ہم اس وقت غیرمعمولی صورتحال سے گزررہے ہیں، اس لئے غیرمعمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمارے منتخب حکمراں اپنے آپ کو عقل کل نہ سمجھیں، وہ اکیلے پاکستان تبدیل نہیں کرسکتے، سب کو ساتھ لیکر چلیں جنہوں نے ووٹ دیئے، جنہوںنے نہیں دیئے، سب پاکستانی ہیں، سب میں اپنائیت کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔ بہت سے ملکوں میں اس اجتماعی قیادت اور شراکتی جمہوریت کا تجربہ کیا گیا، وہ کامیاب رہا۔ پالیسیاں ایسی ہوں جو بعد میں آنے والی حکومت تبدیل نہ کرے، مختلف صوبوں میں اگر مختلف حکومتیں بھی ہوںتب بھی اقتصادی اور ترقیاتی پالیسیاں سب کی مشترکہ ہونی چاہئیں۔
سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ وفاقی صوبائی سیکریٹریوں، سرکاری کارپوریشنوں کے سربراہوں جیسے کلیدی عہدوں پر اپنے منظور نظر افراد کی بجائے اہل افسروں کا تقرر کیا جائے۔اس کیلئے غیر سرکاری ماہرین کا ایک پینل تشکیل دیا جائے کہ وہ انٹرویو کرکے امیدواروں کے نام وزیراعظم کو بھجوائے۔ یہ نہ ہو کہ وزیراعظم کا پرنسپل سیکرٹری بے تاج بادشاہ بن جائے، کلیدی عہدے بھی نیلام ہوں، سیکریٹریز بھی اپنےمن مانے ہوں۔
مقامی حکومتوں یعنی بلدیاتی اداروں کی رہائی بھی فوری عمل میں آنی چاہئے۔ پورے ملک میں یکساں بلدیاتی نظام، بااختیار میئر، چیئرمین، جمہوریت کے استحکام اور شہروں میں معیار زندگی بلند کرنے کیلئے ضروری ہیں۔ شراکتی جمہوریت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ بلدیاتی سربراہوںسے بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں مشاورت کی جائے۔
عدلیہ اور فوج اس انتخابی مہم میں الزامات کی زد میں آئے ہیں، نئی حکومت اور پارلیمنٹ کو اس چیلنج کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔ دونوں ادارے ایک طویل پس منظر رکھتے ہیں، ان سے انتظامیہ کے تعلق کی نوعیت پر بھی بحث ہونی چاہئے۔ ایک غیرمعمولی صورتحال میں ان سے مشاورت بھی ناگزیر ہے۔شراکتی جمہوریت سے ہی پاکستان کے عوام یہ کہہ سکیں گے کہ وہ فیصلہ سازی میں شریک ہیں، میڈیا نے عوام کو مونث بنادیا ہے، ان کی گواہی آدھی رہ گئی ہے۔